Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

77 - 465
٢ وعندہما یقسم علی مہر مثلیہما وہی مسألة الاصل (١٥٣٢) ومن ادعت علیہ امرأة انہ تزوجہا واقامت بینةً فجعلہاالقاضی امرأتہ ولم یکن تزوجہا وسعہا المقام معہ وان تدعہ یجامعہا ) ١ وہذا عند ابی حنیفة وہو قول ابی یوسف اولاً 

کہ پورا مہر اس ایک کے مقابلے ہی میں متعین کیا ہے ۔۔ مسمی : متعین کیا ہوا۔  
ترجمہ : ٢  اور صاحبین  کے نزدیک دو نوں کے مہر مثل پر تقسیم کیا جائے گا ۔ اور یہ مسئلہ کتاب الاصل کا ہے ۔
تشریح :   صاحبین کی رائے ہے کہ پورا مہر دو عورتوں کے مقابلے میں ذکر کیا ہے اسلئے مہر دو نوں پر تقسیم کیا جائے گا ، اور جو مہر جائز والے کے حصے میں آئے گا وہ اس کو دیا جائے گا ، اور جو مہر دوسری کے حق میںآئے گا وہ شوہر کے پاس رہے گا ۔ اور مہر تقسیم کر نے کا طریقہ یہ ہو گا کہ  دونوں کا جو مہر مثل ہو گا اس حساب سے مہر تقسیم کیا جائے گا ۔ مثلا صائمہ کا مہر مثل دو ہزار ہے اور ساجدہ کا مہر مثل ایک ہزار ہے اور دو نوں کے لئے ایک ہزار مہر متعین کیا تھا تو چونکہ صائمہ کا مہر مثل دو گنا ہے اس لئے اگر اس کی شادی درست ہو ئی تو اس کو دو گنا ملے گا ، یعنی ایک ہزار میں سے چھ سو چھیاسٹھ درہم ملے گا ، اور اگر ساجدہ کا نکاح درست ہو تو اس کو ایک ہزار میں سے تین سو تینتیس درہم ملے گا ۔
ترجمہ : ( ١٥٣٢)  کسی پر ایک عورت نے دعوی کیا کہ اس نے اس سے شادی کی ہے اور بینہ قائم کیا اور قاضی نے اس کی بیوی بنادی ، حالانکہ اس سے شادی نہیں کی تھی تو عورت کے لئے گنجائش ہے کہ مرد کے ساتھ ٹھہرے اور شوہر کو جماع کر نے کے لئے چھوڑ دے ۔ 
ترجمہ :   ١  یہ امام ابو حنیفہ  کے نزدیک ہے اور امام ابو یوسف  کا بھی پہلا قول یہی تھا ۔ 
تشریح :   یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ نکاح اور طلاق ایسی چیز ہے کہ پہلے نہیں ہوا تھا تو قاضی کے فیصلے کے بعد اب ہو جائے گی۔  صورت مسئلہ یہ ہے کہ کسی عورت نے ایک مرد پر دعوی کیا کہ اس نے مجھ سے نکاح کیا ہے ، حالانکہ حقیقت میں اس نے اس سے نکاح نہیںکیا تھا ، پھر عورت نے گواہی پیش کر دی اور قاضی نے اس کو سچ سمجھ کر بیوی ہو نے کا فیصلہ کر دیا ، تو امام ابو حنیفہ  فر ما تے ہیں کہ اب یہ حقیقت میں بیوی بن گئی اور اس عورت کے لئے جائز ہے کہ مرد کے یہاں بیوی کی طرح رہے اور مرد کو جماع کر نے دے ۔کیونکہ ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی یہ فیصلہ نافذ ہو جائے گا ۔
وجہ :  (١)  اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نکاح چا ہے پہلے نہ ہوا ہو لیکن قاضی نے جب دو گواہ کے ذریعہ نکاح کا فیصلہ کر دیا تو گویا کہ اب نکاح ہو گیا ، اور جب نکاح ہو گیا تو بیوی کی طرح رہ سکتی ہے ۔ (٢) اگر چہ گواہ جھوٹے ہیں لیکن قاضی نے تحقیق کے بعد یہ سمجھا کہ یہ سچے ہیںتو وہ سچا سمجھا جائے گا ، کیونکہ ظاہری تحقیق کے بعد جھوٹے سچے کا پتہ لگا نا مشکل ہو تا ہے اس لئے ظاہری تحقیق پر ہی فیصلے کا 

Flag Counter