Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

78 - 465
٢  وفی قولہ الاٰخر وہو قول محمد لایسعہ ان یطأہا وہو قول الشافعی لان القاضی اخطأ الحجة  اذالشہودکذبة فصار کما اذا ظہر انہم عبید اوکفار  

مدار رکھا جائے گا ۔ (٣)عورت کا دعوی ہے کہ میںنکاح کے ذریعہ اس کی بیوی بنی ہوں تو یہ دعوی املاک مقیدہ ہے کیونکہ بیوی بننے کا سبب بیان کیا ہے، اور املاک مقیدہ میں قاضی کا فیصلہ ظاہرا بھی نافذ ہو تا ہے اور باطنا بھی نافذ ہو تا ہے ، اس لئے یہاں ظاہری اور باطنی دو نوں طرح فیصلہ نافذ ہو گا ۔  
لغت :  ایک ہے املاک مرسلہ ، اور دوسرا ہے املاک مقیدہ ۔املاک مرسلہ : کسی  چیز پر ملکیت کا دعوی کرے اور اس کی وجہ نہ بتائے تو اس کو املاک مرسلہ کہتے ہیں ، مثلا کہے کہ یہ باندی میری ہے ، لیکن کس طرح اس کی ملکیت میںآئی ، وراثت کے ذریعہ یا خریدنے کے ذریعہ یہ نہ بتائے تو اس کو املاک مرسلہ کہتے ہیں ، مرسل کا معنی ہے چھوڑے ہوئے ، آزاد ، چونکہ اس کے مالک ہو نے کے اسباب بہت سے ہو سکتے ہیں اس لئے اس کو اسباب مرسلہ کہتے ہیں ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہو گا ، باطنی طور پر یعنی اللہ کے نزدیک نا فذ نہیں ہو گا ۔ دوسرا ہے،  املاک مقیدہ :املاک مقیدہ  : کسی چیز پر ملکیت کا دعوی کرے اور ملکیت میں آنے کی وجہ بتائے تو اس کو املاک مقیدہ کہتے ہیں ، مثلا کہے کہ یہ باندی میری ہے ، اور یہ بھی بتائے کہ وراثت کے ذریعہ ، یا خریدنے کے ذریعہ یہ باندی میری ملکیت میں آئی ہے تو اس کو املاک مقیدہ کہتے ہیں، کیونکہ یہاں یہ قید ہے کہ کس سبب سے ملکیت میں آئی ہے ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دو نوں طرح نافذ ہو گا یعنی دنیا کے اعتبار سے بھی نافذ ہو گا ،اور باطنی طور پر یعنی اللہ کے نزدیک بھی نا فذ ہو گا ۔ نفاذ ظاہری :  دنیاوی اعتبار سے احکام کا ترتب ہو اس کو نفاذ ظاہری کہتے ہیں ۔ مثلا بیوی کا قدرت دینا ، شوہر پر نان نفقہ لازم ہو نا یہ نفاذ ظاہری ہے ۔ نفاذ باطنی : اللہ کے نزدیک بھی حلال ثابت ہو جائے اس کو نفاذ باطنی کہتے ہیں ۔
ترجمہ : ٢  حضرت امام ابو یوسف  کا آخری قول اور وہی قول امام محمد  کا ہے کہ مرد کے لئے گنجائش نہیں ہے کہ وہ عورت سے وطی کرے ، اور یہی قول امام شافعی  کا ہے ، اس لئے کہ قاضی نے دلیل میں غلطی کی ہے ، اس لئے کہ گواہ جھوٹے ہیں ،تو ایسا ہو گیا کہ یہ ظاہر ہو جائے کہ گواہ غلام ہیں یا کافر ہیں ۔
تشریح :  امام ابو یوسف  کا آخری قول اور امام محمد  اور امام شافعی  کا قول یہ ہے کہ مرد کے لئے گنجائش نہیں ہے کہ اس عورت سے وطی کرے ، اس لئے کہ یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ یہ گواہ جھوٹے ہیں اور قاضی دلیل پکڑنے میں غلطی کی ہے اس لئے حقیقت میں یہ اس کی بیوی نہیں ہے اس لئے اس سے وطی نہیں کر نی چا ہئے ۔ اس کی دو مثالیں پیش کر رہے ہیں کہ ]١[ ایک یہ کہ بعد میں ظاہر ہو جا تا کہ گواہ غلام ہیں تو سب کے نزدیک اس عورت سے وطی کر نا جائز نہیںہو تا اسی طرح جب گواہ جھوٹے ہیں تو بھی اس سے وطی نہیں کر نا چاہئے  ]٢[ یا ظاہر ہو جا تا کہ یہ گواہ کا فر ہیں تو سب کے نزدیک بیوی نہیں بنی اور اس سے وطی کر نا جائز نہیں ہو تا اسی طرح یہاں بھی 

Flag Counter