Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

409 - 465
 ٥   وہذا الخلاف فیما اذا لم تکن لہ نےة اما اذا نوی الوقت یقع فی الحال ولو نوی الشرط یقع فی اٰخر العمر لان اللفظ یحتملہما (١٧٨٤) ولو قال انت طالق مالم اطلقک انت طالق فہی طالق بہذہ التطلیقة ) ١ معناہ قال ذلک موصولا بہ   ٢  والقیاس ان یقع المضاف فیقعان ان کانت مدخولا 

نزدیک اذا وقت کے معنی میں ہے  اس لئے اوپر کے مسئلے میں بھی اذا کو وقت کے معنی میں لیا جائے ، اس کا جواب دیا جا رہا ہے کہ مشیت اور اختیار کا معاملہ اس کا الٹا ہے ، اس لئے کہ مشیت میں اذا کو وقت کے معنی میں لیتے ہیں تو عورت کے ہاتھ سے طلاق دینے کا اختیار نہیں نکلتا ہے ، اور شرط کے معنی میں لیتے ہیں تو اختیار نکل جا تا ہے ، حالانکہ شوہر کے اختیار دینے سے طلاق دینے کا اختیار اس کے ہاتھ میں یقینی ہے، اس لئے شک اور احتمال کی بنا پر اختیار نہیں نکلے گا ، اور اذا کو وہاں وقت ہی کے معنی میں لینا بہتر ہو گا ۔
ترجمہ:   ٥  یہ خلاف اس صورت میں ہے جب کی اس کی کوئی نیت نہ ہو ، بہر حال وقت کی نیت ہو تو فی الحال واقع ہو گی ، اور اگر شرط کی نیت کی تو آخری عمر میں طلاق ہو گی ، اس لئے کہ لفظ دونوں کا احتمال رکھتا ہے ۔ 
تشریح :   امام صاحبین  کے یہاں اذا وقت کے معنی میں ، اور امام ابو حنیفہ  کے یہاں شرط کے معنی میں اس وقت ہے جبکہ یہ جملہ بول کر کوئی نیت نہ کی ہو ،  اور اگر نیت کی ہو تو امام ابو حنیفہ  کے یہاں بھی وقت کی نیت کرے تو شوہر کے چپ ہو نے کے بعد فورا طلاق واقع ہو گی ، اور شرط کی نیت کی ہو تو موت کے وقت واقع ہو گی ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اذا کا لفظ وقت اور شرط دونوں کا احتمال رکھتا ہے اسلئے دونوں کی نیت کر سکتا ہے ۔
 ترجمہ:  (١٧٨٤)  اگر شوہر نے کہا ٫ تم طلاق والی ہو جس وقت تمکو طلاق نہ دوں ، تو طلاق والی ہے ، تو اس کو یہ آخری طلاق واقع ہو گی ۔ 
  ترجمہ:   ١  اس کا معنی یہ ہے کہ متصلا کہے ۔ 
تشریح :  شوہر نے کہا٫ جس وقت میں تمکو طلاق نہ دوں اس وقت تمکو طلاق ہے ، اور یہ کہنے کے بعد متصلا کہہ دیا ، تم کو طلاق ہے ، تو جو بعد میں متصلا انت طالق کہا اس سے طلاق واقع ہو گی ، کیونکہ اس نے کہا تھا کہ تم کو طلاق نہ دوں تو طلاق ہے پس طلاق نہ دیتا تو پہلے جملے سے طلاق واقع ہو تی ، لیکن متصلا طلاق دے دیا تو شرط نہیں پائی گئی اس لئے پہلے جملے سے طلاق واقع نہیں ہو گی ، بلکہ بعد کے جملے سے طلاق واقع ہو گی ۔اور انت طالق مالم اطلقک ، اور انت طالق کے درمیان طلاق نہ بولنے کا جو تھوڑا سا وقفہ ہے وہ معاف ہے ، کیونکہ اتنا وقفہ کر نے پر انسان مجبور ہے ۔اور اگر انت طالق مالم اطلقک کے بعد متصلا انت طالق نہ کہتا بلکہ دیر کرکے انت طالق کہتا تودو طلاق واقع ہوتی ، ایک شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے ، اور دوسری بعد میں جو انت طالق کہا اس سے ۔  
ترجمہ :   ٢  قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ مضاف]پہلے جملے والی طلاق [  واقع ہو تو دو واقع ہو گی اگر مدخول بھا ہو ، یہی قول امام زفر 

Flag Counter