Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

406 - 465
 ١  لان العدم لا یتحقق الا بالیاس عن الحیوة وہو الشرط کما فی قولہ ان لم اٰت البصرة   ٢    وموتہا بمنزلہ موتہ ہو الصحیح  (١٧٨٣) ولو قال انت طالق اذا لم اطلقک او اذا مالم اطلقک لم تطلق حتی یموت عند ابی حنیفة وقالا تطلق حین سکت )  ١  لان کلمة اذا اللوقت قال اللہ تعالیٰ اذا 

ترجمہ :   ١  اس لئے کہ طلاق نہ دینا نہیں متحقق ہو گا مگر زندگی سے مایوسی کے وقت ، اور یہی شرط ہے جیسے آدمی کا قول ان لم آت البصرة ۔ 
تشریح :   انت طالق ان لم اطلقک ، کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں زندگی میں طلاق نہ دوں تو طلاق ہے ، اس لئے موت کے وقت زندگی سے مایوس ہو جائے تب معلوم ہو گا کہ اس نے  طلاق نہیں دی اس لئے موت سے پہلے طلاق واقع ہو گی ۔ ، جیسے  کہے کہ اگر میں بصرہ نہ آؤں تو طلاق ہے ، تو موت تک انتظار کیا جائے گا کہ بصرہ آیا یا نہیں ، اور موت کے وقت پتہ چلے گا کہ بصرہ نہیں آیا اس لئے موت کے وقت طلاق واقع ہو گی ، اسی طرح یہاں موت کے وقت طلاق واقع ہو گی۔    
 لغت :   العدم : معدوم ہو نا ، یہاں مراد ہے طلاق نہ دینا ۔ الیاس : مایوس ہو نا ۔ 
ترجمہ:   ٢  عورت  کا مرنا شوہر کے مرنے کی طرح ہے ۔ 
تشریح :   اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ  اب تک طلاق نہیں دی ہے اور عورت مرنے لگے تو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ عورت کے مرتے وقت پتہ چلا کہ شوہر نے طلاق نہیں دیا ۔ اس لئے کہا کہ عورت کا مرنا شوہر کے مرنے کی طرح ہے ۔ 
ترجمہ:  (١٧٨٣)  اگر کہا کہ تم طلاق والی ہے جب میں تجھے طلاق نہ دوں تو طلاق واقع نہیں ہو گی یہاں تک کہ موت کے قریب ہو جائے ، امام ابو حنیفہ  کے نزدیک ، اور صاحبین  نے فر ما یا کہ طلاق واقع ہو گی جس وقت چپ ہوا ۔ 
تشریح :   اس مسئلہ میں٫ اذا، اور٫ اذا ما ، استعمال ہوا ہے ، یہ دو نوں لفظ شرط کے لئے بھی آتا ہے اور وقت کے لئے بھی آتا ہے ، پس اگر وقت کے لئے لیں تو شوہر کے چپ رہنے کے بعد ہی طلاق واقع ہو جائے گی ، کیونکہ مطلب یہ ہوا کہ جس وقت طلاق نہ دوں تو تم کو طلاق ، اور چپ رہنے کے بعد طلاق نہ دینے کا وقت پا یا گیا اس لئے فورا طلاق واقع ہو جائے گی ۔ اور اگر شرط کے معنی میں لیں ، تو معنی یہ ہو گا کہ اگر زندگی میں طلاق نہ دوں تو تم کو طلاق ، اس لئے موت کے وقت پتہ چلا کہ طلاق نہیں دی اس لئے موت کے وقت طلاق واقع ہو گی ۔ ۔ امام ابو حنیفہ  نے ان دونوں لفظوں کو شرط کے معنی میں لیا ہے تاکہ زندگی بھر طلاق نہ ہو ، کیونکہ اس کے وقت اور شرط دونوں معنی ہوں سکتے ہیں اس لئے شک کی بنیاد پر فورا طلاق واقع نہیں کی جائے گی ۔۔ اور صاحبین  نے ان دونوں لفظوں کو وقت کے معنی میں لیا اورشوہر کے چپ رہنے پر فورا طلاق واقع کی ۔ دونوں کے دلائل آگے آرہے ہیں ۔
ترجمہ:   ١  اس لئے کہ کلمہ اذا  وقت کے لئے آتا ہے ، اللہ تعالی نے فر ما یا اذا الشمس کورت ، اور شعر کہنے والوں نے کہا۔

Flag Counter