Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

402 - 465
٣   وتعین الجزء الاول ضرورة عدم المزاحم فاذا عین اٰخر النہار کان التعین القصدی اولی باعتبار من الضروری   ٤  بخلاف قولہ غدا لانہ یقتضی الا ستیعاب حیث وصفہا بہذہ الصفة مضافاً الی جمیع الغد نظیرہ اذا قال واللہ لا صومن عمری ونظیر الاول واللہ لا صومن فی عمری وعلی ہذا الدہر وفی الدہر  (١٧٧٨) ولو قال انت طالق امس وقد تزوجہا الیوم لم یقع شیٔ )

 ترجمہ: ٣  اور پہلے جز کا متعین ہو نا مزاہم کے نہ ہو نے کی مجبوری کی وجہ سے ہے ، پس جبکہ دن کا آخری حصہ متعین ہو گیا تو ارادے کے طور پر تعین زیادہ بہتر ہے مجبوری کے طور پر اعتبار کر نے سے ۔
تشریح: مزاہم : مد مقابل ہو نا ، کوئی دوسرا موجود ہو نا ۔۔یہ صاحبین کو جواب ہے ، انہوں نے فر ما یا تھا کہ نیت نہ ہو تو اس جملے میں بھی جزو اول  میں طلاق متعین ہو تا ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ نیت نہ ہو تو کوئی دوسرا وقت مو جود نہیں ہے اس لئے مجبورا جزو اول لے لیا گیا ، لیکن نیت کرکے ارادے کے طور پر آخری دن متعین کیا تو مجبوری کے بجائے ارادے کو لینا زیادہ بہتر ہے ، کیونکہ وہ حقیقت کلام ہے ۔
ترجمہ:  ٤  بخلاف اس کا قول غدا کے اس لئے کہ وہ جملہ گھیرنے کا تقاضا کرتا ہے اس طرح کہ عورت کو اس صفت کے ساتھ متصف کیا تمام دن کی طرف نسبت کرتے ہوئے ، اس کی مثال جبکہ کہے و اللہ لاصومن عمری ، اور پہلے کی مثال و اللہ لاصومن فی عمری ، اور اسی طرح ٫ الدھر ، اور ٫فی الدھر۔
تشریح: یہ بھی صاحبین  کو جواب ہے ، انہوں نے فر مایا تھا کہ ٫ انت طالق فی غد، انت طالق غدا ، کی طرح ہو گیا ۔ اس کا جواب دیا جا رہا ہے کہ دو نوں میں فرق ہے ، انت طالق  غدا ، کا ترجمہ ہے کہ عورت کل کے پورے حصے میں طلاق کے ساتھ متصف رہے ، اور یہ اسی شکل میں ہو سکتا ہے کہ دن کے پہلے جزو میں طلاق واقع ہو جائے ، اور انت طلاق فی غد کا ترجمہ ہے کہ کل کے کسی بھی حصے میں طلاق ہو جائے اتنا ہی کافی ہے ۔ اس کی دو مثالیں دی ہیں ]١[و اللہ لاصومن عمری ، بغیر ٫فی ، کے کہا تو اسکا ترجمہ ہوا کہ پوری عمر روزہ رکھوں گا ، جس طرح ٫انت طالق غدا ، میں پورا دن طلاق سے ہو نا ضروری ہے۔ اور واللہ لاصومن فی عمری ، کا ترجمہ ہے عمر بھر میں کبھی ایک دن روزہ رکھ لوں گا ، جس طرح انت طالق فی غد، کا ترجمہ ہے کہ دن بھر میں کبھی بھی طلاق واقع ہو جائے تو کا فی ہے ۔]٢[ دوسری مثال ہے ، و اللہ لاصومن الدھر ،  میں فی نہیں ہے ، اس کا ترجمہ ہے زندگی کا پورا زمانہ روزہ رکھوں گا ، اور و اللہ لاصومن فی الدھر ، میں فی ، ہے اس لئے اس کا ترجمہ ہے زندگی میں کبھی بھی روزہ رکھ لوں گا ، جس طرح انت طالق فی غد کا ترجمہ ہے کہ دن بھر میں کبھی بھی طلاق واقع ہو جائے ۔      
 ترجمہ: (١٧٧٨)  اور اگر کہا ٫تو کل طلاق والی ہے ، اور حال یہ ہے کہ اس سے آج شادی کی ہے تو کچھ واقع نہیں ہو گی ۔

Flag Counter