Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

39 - 465
٢ ولوکانت المحرمےة بینہما بسبب الرضاع تحرم لما روینا من قبل   (١٥٠٧)ولابأس بان یجمع بین امرأة وبنت زوج کان لہا من قبل  ) ١ لانہ لا قرابة بینہما ولا رضاع

عموما دشمنی ہوتی ہے ، تو ذی محرم قرابت دشمنی کا سبب بنی ، اور قرابت میں دشمنی حرام ہے اس لئے اس نکاح کو ہی حرام قرار دیا جائے۔ 
ترجمہ :  ٢  اگر دو نوں کے درمیاں حرمت رضاعت کے سبب سے ہو تو بھی حرام ہو گا ، اس حدیث کی بناپر جو ہم نے پہلے روایت کی ۔ 
تشریح :  نسب کے اعتبار سے ذی رحم محرم نہ ہو بلکہ رضاعت یعنی دودھ پلانے کی وجہ سے محرم بنی ہو مثلا رضاعت کی وجہ سے پھوپھی اور بھتیجی بنی ہو یا خالہ اور بھانجی بنی ہو تو جس طرح نسب کی وجہ سے حرمت ہے اسی طرح رضاعت کی وجہ سے بھی حرمت ہے ، اور دو نوں کو ایک نکاح میں جمع کر نا حرام ہے ۔کیونکہ حدیث میں ہے کہ نسب سے جو حرام ہوتی ہے وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہے ۔ حدیث یہ ہے۔     
وجہ :(١) صاحب ھدایہ کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے  ۔ ۔ حرمت علیکم أمھاتکم ..... وامھاتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعة (آیت ٢٣ سورة النساء ٤) اس آیت میں رضاعی ماں اور رضاعی بہن سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے (٢)  صاحب ہدایہ کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے ۔  عن ابن عباس قال قال النبی ۖ فی بنت حمزة لا تحل لی یحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب ھی ابنة اخی من الرضاعة ۔ (بخاری شریف ، باب الشھادة علی الانساب والرضاع المستفیض والموت القدیم ص ٤٢٨، نمبر ٢٦٤٥) اس حدیث  میں ہے کہ نسب کی وجہ سے جو حرام ہیں رضاعت کی وجہ سے بھی وہ حرام ہوں گیں ۔
ترجمہ : (١٥٠٧) اور کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ جمع کرے عورت کو اور شوہر کی بیٹی کو جو پہلی بیوی سے ہو۔ 
ترجمہ :    ١  اس لئے کہ دو نوں کے درمیان کوئی قرابت نہیں ہے اور نہ رضاعت ہے ۔ 
تشریح:   شوہر کی بیٹی جو پہلی بیوی سے ہو اس کو سوتیلی بیٹی کہتے ہیں ۔یعنی سوتیلی ماں اور سوتیلی بیٹی کو ایک مرد کے نکاح میں جمع کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ یہ دو نوں ذی رحم محرم نہیں ہیں ، اور رضاعت کا رشتہ بھی نہیں ہے ، یہ تو باپ کی شادی کر نے کی وجہ سے سوتیلی ماں بنی ہے ،اور طلاق دینے کے بعد دو نوں پھر سے اجنبیہ بن گئیں ۔  
وجہ:  (١)  سوتیلی ماں اور بیٹی کے درمیاں اگر بیٹی کو مرد فرض کریں تو سوتیلا بیٹا ہوا ۔اور سوتیلے بیٹے کی شادی سوتیلی ماں سے حرام ہے۔لیکن اگر ماں کو مرد فرض کرلیں تو اجنبی مرد ہوا ۔اور اجنبی مرد کا اس لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔اس لئے ماں کو مرد فرض کرنے کی صورت میں آپس میں نکاح کرنا جائز ہے۔اس لئے اس مسئلے میں ایک طرف سے جائز ہوتا ہے اور دوسری طرف سے حرام 

Flag Counter