Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

284 - 465
(١٦٨٢) ولوکان احدہماکتابیا والاٰخرمجوسیا فالولد کتابی)    ١   لان فیہ نوع نظر لہ اذالمجوسےة شرّمنہ   ٢   والشافعی یخالفنا فیہ للتعارض  ٣  ونحن اثبتنا الترجیح  (١٦٨٣) واذا اسلمت المرأة وزوجہا کافر عرض القاضی علیہ الاسلام فان اسلم فہی امرأتہ وان ابی فرق بینہماوکان ذلک طلاقا عند ابی حنیفةومحمد  وان اسلم الزوج وتحتہ مجوسےة عرض علیہا الاسلام فان اسلمت فہی امرأتہ وان ابت فرق القاضی بینہما ولم تکن الفرقةبینہما طلاقا) 

ترجمہ:  (١٦٨٢)  اگر والدین میں سے ایک کتابی ہو اور دوسرا مجوسی ہو تو بچہ کتابی شمار ہوگا ۔  
ترجمہ:  ١  اس لئے کہ اس میں بچے کی مصلحت ہے ، اس لئے کہ مجوسیت کتابی سے بھی زیادہ شریر ہے ۔
تشریح :   ماں باپ میں سے ایک کتابی یعنی یہودی یا نصرانی ہو اور دوسرا مجوسی ہو تو بچہ کو کتابی شمار کیا جائے گا ، کیونکہ مجوسی دین کے اعتبار سے بدتر ہے۔اور یہودی اور نصرانی پھر بھی آسمانی کتابوں پر یقین رکھتے ہیں۔اس لئے بچہ خیر الادیان کے تابع ہو کر کتابی شمار ہوگا۔
ترجمہ:   ٢  اور امام شافعی   اس بارے میں ہماری مخالفت کر تے ہیں تعارض کی بنا پر ۔ 
تشریح :   امام شافعی  کی رائے یہ ہے کہ ماں باپ میں سے ایک کتابی ہو اور دوسرا مجوسی ہو تو بچہ کو  مجوسی شمار کیا جائے گا ۔ تعارض کی بنا پر ، تعارض کا مطلب یہ ہے کہ ، بچے کو کتابی شمار کرتے ہیں تو اس کا ذبیحہ حلال ہو گا اور مجوسی شمار کرتے ہیں تو اس کا ذبیحہ حرام ہو گا، کیونکہ وہ کافر ہے ، اور حرمت اور حلت میں تقابل ہو جائے تو حرمت کو ترجیح ہو تی ہے ، اس لئے یہاں بھی حرمت کو ہی ترجیح ہو گی اور بچہ مجوسی شمار کیا جائے گا ۔
ترجمہ:  ٣  اور ہم ترجیح کی بنا پر ثابت کرتے ہیں ۔ 
تشریح :   حنفیہ بچے کو کتابی اس لئے شمار کرتے ہیں کہ اس میں بچے کا فائدہ ہے کہ اس کا ذبیحہ حلال ہو گا ، اس کی لڑکی سے مسلمان نکاح کر سکے گا ، اس لئے کتابی ہو نے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ 
 ترجمہ:   (١٦٨٣)  اگر عورت اسلام لائی اور اس کا شوہر کافر ہے تو قاضی اسپر اسلام پیش کرے،پس اگر اسلام لے آئے تو عورت اس کی بیوی رہے گی۔اور اگر اسلام سے انکار کر دیا تو دونوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی۔اور یہ تفریق طلاق بائنہ ہوگی امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک۔اور اگر شوہر اسلام لائے اور اس کے تحت میں مجوسیہ عورت ہو تو عورت پر اسلام پیش کیا جائے گا ، پس اگر عورت اسلام لے آئی تو وہ اس کی بیوی رہے گی اور اگر انکار کر دیا تو قاضی دو نوں کے درمیان تفریق کرائے گا ،اور یہ فر قت طلاق بائنہ نہیں ہو گی ۔اور امام ابو یوسف نے فرمایا کہ یہ فرقت ہوگی بغیر طلاق کے۔  
 
Flag Counter