Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

255 - 465
 (١٦٦٠)  ومن زوج عبداً مدیونا ماذونا لہ امرأةً جاز والمرأة اسوة للغرماء فی مہر ہا )   ١   ومعنا ہ اذا کان النکاح بمہر المثل ٢   ووجہہ ان سبب ولاےة المولی ملکہ الرقبة علی ما نذکرہ والنکاح لایلاقی  حق الغرماء بالابطال مقصودا الا انہ اذا صح النکاح وجب الدین بسبب لا مرد لہ فشابہ دین الاستہلاک  

فاسد سے بھی قسم میں حانث ہو جائے گا ، اس لئے صاحبین  کا استدلال کر نا صحیح نہیں ہے ۔ 
ترجمہ:  (١٦٦٠)  کسی نے ایسے غلام کی کسی عورت سے شادی کرائی جو مقروض ہے اور تجارت کر نے کی اجازت ہے تو نکاح جائز ہے اور  وہ عورت اپنے مہر میں قرض خواہوں کے برا بر ہو گی ۔  
ترجمہ:      ١   اس کا معنی یہ ہے کہ مہر مثل میں نکاح کرایا ہو ۔
تشریح :    جس غلام کو تجارت کی اجازت ہے اگر اس پر قرض آجائے تو اس قرض میں بیچا جائے گا اور مقروض کو حق دیا جائے گا ، اسی طرح آقا نے نکاح کرا یا ہو تو عورت کا مہر اس کی گردن پر قرض ہوا اسلئے اس میںبھی بیچا جائے گا ۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ آقا نے مأذون التجارت غلام کا مہرمثل میں نکاح کرا یا اور اس پر تجارت کا قرضہ تھاتو یہ غلام بیچا جائے گا اور اس کی قیمت میں اتنا ہی فیصد ملے گا جتنا اور قرض خواہوں کو ملے گا ، مثلا دو آدمی کا ایک ایک ہزار قرض تھا ، اور ایک ہزار مہر مثل تھا ، اور غلام پندرہ سو میں بیچا گیا ، تو دوسرے قرض خواہوں کو اپنے قرض کا آدھا پانچ پانچ سو ملے گا ، تو عورت کو بھی پانچ سو ہی ملے گا ۔اس میں مہر مثل کی قید اس لئے لگائی کہ اس سے زیادہ میں نکاح کرایا ہو تو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ آقا دوسرے قرض خواہوں کے حق کو دبا نا چا ہتا ہے ، لیکن اگر مہر مثل میں شادی کرائی تو یہ شبہ نہیں ہو گا ۔
لغت :   مأذون : جس غلام کو آقا نے تجارت کی اجازت دی ہے اس کو مأذون کہتے ہیں۔ اسوة : برابر۔ غرماء : قرض خواہ ، اسوة للغرماء : کاترجمہ ہے کہ جتنا فیصد اور قرض خواہوں کو ملے گا اتنا ہی فیصد عورت کو بھی ملے گا ۔ 
ترجمہ:  ٢   اس کی وجہ یہ ہے کہ آقا کی ولایت کا سبب اس کا ملک رقبہ ہے ،  جیسا کہ ہم بعد میں ذکر کریں گے ،اور نکاح قرض خواہ کے حق کو مقصود کے طور پر باطل نہیں کر رہا ہے ، مگر یہ ہے کہ جب نکاح صحیح ہو گیا تو ایسے سبب سے قرض واجب ہو گیا کہ اس کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے ، اس لئے استہلاک کے دین کے مشابہ ہو گیا ۔ 
تشریح :   غلام پر آقا کی ملکیت ہے اس لئے وہ نکاح کرا سکتا ہے ، اور یہاں نکاح کا براہ راست یہ مقصد نہیں ہے کہ دوسرے قرض خواہوں کے حق کو باطل کرے ، بلکہ نکاح کا اصل مقصد ہے غلام کی انسانی ضرورت کو پورا کر نااور جب نکاح درست ہو گیا تو ضمنا قرض خواہوں کے حق میں کمی آئے گی جس کا اعتبار نہیں ہے ،اس کی مثال یہ ہے کہ یہی غلام دوسرے کا مال ہلاک کر دے تو وہ 

Flag Counter