Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

237 - 465
 ١ عند ابی حنیفة    ٢    وقالا لورثتہا المہر فی الوجہین معناہ المسمی فی الوجہ الاول ومہر المثل فی الثانی ٣ اما الاول فلان المسمی دین فی ذمتہ وقد تاکد بالموت فیقضی من  ترکتہ الا اذا علم انہا ماتت اولاً فیسقط نصیبہ من ذلک 

ترجمہ  :   ١   امام ابو حنیفہ  کے نزدیک ۔ 
تشریح :  اگر میاں بیوی دو نوں کا انتقال ہو گیا ہو اور عورت کے لئے  پہلے سے مہر متعین ہو تو عورت کے ورثہ کو حق ہے کہ شوہر کی میراث میں سے عورت کا مہر وصول کرے ، کیونکہ شوہر کے ذمے یہ قرض تھا، اور شوہر کے مرنے کے بعد مؤکد ہو گیا اس لئے پہلے مہر دیا جائے گا بعد میں اسکے ورثہ میں میراث تقسیم ہو گی ۔ اور اگر عورت کا مہر متعین ہی نہیں تھااس لئے قاعدے کے اعتبار سے مہر مثل لازم ہو نا چا ہئے ، لیکن انکے اقران ختم ہو چکے ہیں اس لئے کس طرح مہر مثل متعین کریں گے ! اس لئے کچھ بھی لازم نہیںہو گا ۔ اقران : قرن کی جمع ہے ، زمانے کے لوگ ، ہم عمر لوگ۔        
 ترجمہ  :  ٢  صاحبین  نے فر ما یا کہ دو نوں صورتوں میں مہر عورت کے ورثہ کے لئے ہے ، اس کا معنی یہ ہے کہ پہلی صورت میں متعین شدہ مہر ہو گا ، اور دوسری صورت میں مہر مثل ہو گا ۔ 
تشریح :   صاحبین  کے یہاں دو نوں کے موت کے بعد بھی مہر مثل کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے اس لئے جس صورت مہر متعین نہیں ہے اس صورت میں مہر مثل کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے ۔اور جس صورت میں مہر متعین ہے اس میں وہ متعین شدہ مہر عورت کے ورثہ کو دیا جائے گا۔ 
ترجمہ  :  ٣  بہر حال پہلی صورت میں تو اس لئے کہ متعین شدہ مہر شوہر کے ذمے قرض ہے اور موت کی وجہ سے اور بھی موکد ہو گیا اس لئے شوہر کے ترکہ سے ادا کیا جائے گا ، مگر جبکہ معلوم ہو کہ عورت پہلے مری ہو تو شوہر کا حصہ اس سے ساقط ہو جائے گا ۔ 
تشریح :   پہلی صورت سے مراد ہے کہ مہر متعین ہو تو یہ شوہر کے ذمے قرض ہے اس لئے پہلے اس قرض کو ادا کیا جائے گا بعد میں اس کی وراثت تقسیم کی جائے گی ، اس لئے کہ موت سے پہلے تو یہ خطرہ تھا کہ دخول سے پہلے طلاق ہو تو آدھا ہی مہر دینا پڑے گا ، لیکن موت کے بعد تو طے ہو گیا کہ پورا مہر ہی دینا پڑے گا اس لئے یہ دے ۔ البتہ اگر عورت پہلے مری ہو تو شوہر کو اس کی وراثت ملے گی اس لئے مہر میں سے وہ وراثت کاٹ کر عورت کا حصہ اس کے ورثہ کو دیا جا ئے ۔ مثلا ایک ہزار درہم مہر تھا اور عورت کا انتقال پہلے ہوا اور عورت کو اولاد ہے تو شوہر کو ایک ہزار کی چوتھائی ڈھائی سو ملے گا تو یہ ڈھائی سوکاٹ کر ساڑھے سات سو درہم عورت کے ورثہ کو دلوایا جائے گا ۔ اور اگر عورت کو اولاد نہ ہو تو شوہر کو اس کے ترکے کا آدھا ملتا ہے اس لئے ایک ہزار میں سے پانچ سو کا ٹ کر عورت کے ورثہ کو پانچ سو دلوا یا جائے گا ۔ 
 
Flag Counter