Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

221 - 465
٣ وکذلک یصح ہذا الضمان وان کانت الزوجة صغیرة   ٤  بخلاف ما اذا باع الاب مال الصغیر وضمن الثمن لان الولی سفیر ومعبر فی النکاح وفی البیع عاقد ومباشر حتی ترجع العہدة علیہ والحقوق الیہ ویصح ابراؤہ عند ابی حنیفة ومحمد ویملک قبضہ بعد بلوغہ فلو صح الضمان یصیر ضامنا لنفسہ

کیونکہ ولی شوہر کے حکم سے کفیل بنا ہے ، اور کفالت کا دستور یہ ہے کہ اگر قرض دینے والے کو اپنا درہم دیا تو وہ درہم اس سے وصول کرے گا جس کی جانب سے کفیل بنے ہیں ، اس لئے یہاں بھی شوہر سے وصول کرے گا ، کیونکہ اس کا قرض تھا ۔ اور اگر بغیر شوہر کے حکم سے ضامن بنا ہے تو اب شوہر سے وصول نہیں کر سکے گا ، کیونکہ یہ ولی کی جانب سے شوہر پر تبرع اور احسان ہے ۔ 
ترجمہ  :  ٣  اور ایسے ہی صحیح ہے یہ ضمان اگر چہ بیوی نا بالغ ہو ۔ 
تشریح :  بیوی بڑی ہو تب تو خود عورت مہر پر قبضہ کر سکتی ہے اس لئے دینے والا ولی ہوا اور لینے والی عورت ہوئی ، اس لئے لینے والی کوئی اور ہوئی اور دینے والا دوسرا ہوا ، لیکن اگر بیوی نا بالغ ہے تو اس کی جانب سے مہر پر قبضہ کر نے والا یہی ولی ہے ، تو دینے والا بھی ولی ہی ہوا اور لینے والا بھی ولی ہی ہوا ، تو ایک ہی شخص دینے اور لینے والا کیسے ہو گیا ، اس سلسلے میں فر ما یا کہ نکاح میں یہ بھی صحیح ہے، کیونکہ نکاح میں ولی ناکح کی جانب سے صرف سفیر اور معبر ہو تا ہے ، اصل ذمہ دار خود نکاح کر نے والا ہو تا ہے یہی وجہ ہے کہ عورت نفقہ کا مطالبہ شوہر سے کرے گی ولی سے نہیں ، اور شوہر وطی کا  مطالبہ بیوی سے کرے گا اس کے ولی سے نہیں ، اس لئے ولی نے مہر پر قبضہ کیا وہ لڑکی کی جانب سے کیا ، اور جو مہر دیا وہ شوہر کی جانب سے دیا ، اس لئے حقیقت میں ایک ہی آدمی دو نوں جانب سے نہیں ہوا۔ 
ترجمہ  :  ٤  بخلاف جبکہ باپ نے نا بالغ بیٹے کا مال بیچا اور اس کی قیمت کا ضامن بن گیا ، اس لئے کہ ولی نکاح میں سفیر اور معبر ہو تا ہے ، اور بیع میں عقد کر نے والا اور مباشر ہو تا ہے یہی وجہ ہے کہ اسی پر ذمہ داری لوٹتی ہے اور اسی کی طرف حقوق لوٹتے ہیں ، اور ولی مشتری کو بری کر دے تو امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کے نزدیک صحیح ہے ، اور بیٹے کے بالغ ہو نے کے بعد بھی ثمن کے قبضہ کر نے کا مالک ہے ، پس اگر باپ کا ضمان صحیح ہو تو تو اپنے لئے ضامن بننا ہو جائے گا ۔ 
تشریح :  نکاح میں اور بیع میں کیا فرق ہے یہاں سے وہ بتا رہے ہیں ۔ کہ بیع میں جو وکالت کے طور پر بیچنے وا لا ہو تا ہے وہ سفر اور معبر نہیں ہو تا اصل ذمہ دار وہی ہو تا ہے ۔ اور اس کے لئے چار دلیلیں دے رہے ہیں ]١[  پہلی دلیل یہ ہے کہ مبیع میں کوئی خامی ہو تو اس کو دور کر نے کی ذمہ داری اصل مالک کی نہیں ہوتی ، بلکہ جو بیچنے والا ہے اس کی ذمہ داری ہو تی ہے ، اس لئے تمام ذمہ داریاں اسی کی طرف لوٹتی ہے  اگر باپ نے نابالغ بیٹے کی چیز بیچی تو اصل ذمہ دار باپ ہو گا ]٢[  دوسری دلیل یہ ہے کہ مبیع کی قیمت لینا ، اور اس 

Flag Counter