Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

22 - 465
(١٤٨٩) قال وان تزوج مسلم ذمےة بشہادة ذمیین جاز)  ١  عند ابی حنیفة  وابی یوسف ٢  وقال محمد وزفر  لایجوز لان السماع فی النکاح شہادة ولاشہادة للکافر علی المسلم فکانہما لم یسمعا کلام المسلم  

ترجمہ :(١٤٨٩)  پس اگر مسلمان نے ذمیہ عورت سے شادی کی دو ذمیوں کی گواہی سے ۔ 
 ترجمہ :  ١  تو امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک جائز ہے۔
تشریح  اس عبارت میں ذمیہ سے مراد نصرانیہ اور یہودیہ عورت ہے، جو دار الاسلام میں ٹیکس ادا کر کے رہتے ہیں۔ تو مطلب یہ ہوا کہ مسلمان نے یہودیہ یا نصرانیہ سے شادی کی دو یہودی یا دو نصرانی کی گواہی سے تو شیخین کے نزدیک نکاح ہو جائے گا۔  
وجہ  (١)  اس کی وجہ یہ ہے کہ ذمی مسلمان کے نقصان کے لئے گواہی دینا چاہے تو قابل قبول نہیں ہے۔آیت میں ہے  ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا ۔ (آیت ١٤١ سورة النساء ٤) اس آیت میں ہے کہ کافر کو مسلمانوں پر کوئی راستہ نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ نقصان دینے کے لئے گواہی دے تو قابل قبول نہیں۔لیکن مسلمان کے فائدے کے لئے گواہی دے تو مقبول ہے۔ اور اس مسئلے میں یہودیہ یانصرانیہ عورت کا جسم مسلمان کے قبضے میں آرہا ہے جو مسلمان کے فائدے کی چیز ہے اس لئے یہ گواہی مقبول ہوگی (٢)گویا کہ ذمی نے ذمیہ کے  خلاف گواہی دی، کہ اس کے جسم کو مسلمان کے حوالے کر وایا۔اور ذمی ذمی کے خلاف گواہی دے تو یہ مقبول ہے۔اس لئے ذمیہ کے نکاح میں دو ذمی گواہ بن جائیں تو نکاح صحیح ہو جائے گا (٣) حدیث میں ہے  عن جابربن عبد اللہ ان رسول اللہ ۖ اجاز شھادة اہل الکتاب بعضھم علی بعض۔ (ابن ماجہ شریف ، باب شھادة اہل الکتاب بعضھم علی بعض ص ٣٤٠ نمبر ٢٣٧٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب بعض بعض کے خلاف گواہی دے سکتا ہے۔اور اس صورت میں ذمیہ کے خلاف گواہی دینا ہوا اس لئے گواہ بننا جائز ہوگا۔
  ترجمہ : ٢  اور امام محمد اور امام زفر  نے فرمایا کہ نہیں جائز ہے، اس لئے کہ نکاح میں سننا ہی شہادت ہے اور کافر کا مسلمان کے خلاف شہادت جائز نہیں، تو گو یا کہ ان دو نوں نے مسلمان کی باتیں سنی ہی نہیں ۔
تشریح :   امام محمد  کی دلیل یہ ہے کہ نکاح میں گواہی دینے کی ضرورت بہت کم پڑتی ہے ، وہاں تو ایجاب اور قبول کو سننا ہی گواہی ہے اور پیچھے گزر چکا ہے کہ کافر کی گواہی مسلمان کے خلاف قابل قبول نہیں ہے اس لئے یہودی اور نصرانی کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔ اور یوں سمجھا جائے گا کہ گواہوں نے مسلمان کے ایجاب اور قبول کو سنا ہی نہیں ، اور نہیں سنا تو نکاح نہیں ہو گا ۔  
وجہ (١) آیت میں ہے کہ مسلمان کا اپنا گواہ ہو ، صرف سفر میں وصیت کر نی ہو اور کوئی مسلمان وہاں نہ ہو تو اس وقت کافر کی گواہی جائز ہے آیت یہ ہے ۔ یا ایھا الذین آمنوا شھادة بینکم اذا حضر احدکم الموت حین الوصیة اثنان ذوا عدل 

Flag Counter