Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 4

14 - 465
تشریح  اس متن میں چارباتیں ذکر کی گئیں ہیں ]١[ نکاح کے لئے دو گواہ ضروری ہیں ]٢[ دو نوں گواہ مرد ہوں یا ایک مرد ہو اور دو عورتیں ہوں ]٣[ عادل ہوں یا فاسق ہوں تب بھی کا فی ہے ]٤[  محدود فی القذف ، یعنی زنا کی تہمت  میں حد لگی ہوئی ہوں تب بھی چل جائے گا ۔ ان چار باتوں کی تفصیل پہلے دیکھیں پھر صاحب ھدایہ کی عبارت کی تفصیل ہو گی۔  
وجہ  ]١[ نکاح کے لئے دو گواہ ضروری ہیں ، (١) اس کے لئے یہ آیت ہے۔  واستشھدوا شھیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشھدائأن تضل احدٰھما فتذکر احدٰھما الاخریٰ ۔ (آیت ٢٨٢ سورة البقرة ٢) اس آیت سے پتہ چلا کہ دو مردوں کی گواہی ضروری ہے اور دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی چل جائے گی۔اور رجل کے لفظ سے یہ بھی پتہ چلا کہ بچوں کی گواہی قبول نہیں (٢)۔حدیث میں ہے کہ بغیر گواہ کے نکاح کیا تو وہ زنا ہوگا ،نکاح ہوگا ہی نہیں۔حدیث میں ہے ۔ عن ابن عباس ان النبی ۖ قال البغایا اللاتی ینکحن انفسھن بغیر بینة ۔ (ترمذی شریف ، باب ماجاء لا نکاح الا ببینة، ص ٢٠٩ ،نمبر ١١٠٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں ہوگا (٣) عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ۖ لا نکاح الا بولی وشاھدی عدل ۔ (دار قطنی ، کتاب النکاح، ج ثالث ،ص ١٥٨، نمبر ٣٤٩٢ سنن للبیہقی ، باب لا نکاح الا بشاھدیب عدلین، ج سابع، ص ٢٠٢،نمبر ١٣٧١٨) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے دو گواہ ہوں ورنہ نکاح نہیں ہوگا۔
]٢[  اور ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تب بھی کافی ہیں ان کی دلیل یہ اثر ہے۔عن عمربن الخطاب انہ  اجاز شھادة  النساء مع الرجل فی النکاح۔( سنن بیہقی باب لا نکاح الا بشاہدین عدلین ، ج سابع ، ص ٢٠٥، نمبر ١٣٧٢٨ موطا امام محمد ، باب النکاح السر ،ص ٢٤٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی نکاح اور طلاق میں کافی ہے  (٢) اوپر کی آیت میں بھی اس کی صراحت ہے ۔
]٣[ گواہ عادل ہو یا فاسق ہو نکاح میںدو نوں کی گواہی قبول کی جائے اسکے لئے یہ دلیل ہے ۔ یوں تو عادل ہی کی گواہی قبول کرنی چاہئے ۔(١)کیونکہ آیت میں ہے۔ واشھدوا ذوی عدل منکم واقیموا الشھادة للہ ذلکم یوعظ بہ (آیت ٢ سورة الطلاق٦٥)(٢)     اس آیت میں ہے کہ گواہ عادل ہو ۔ یا ایھا الذین آمنوا شھادة بینکم اذا حضر احدکم الموت حین الوصیة اثنان ذوا عدل منکم  (آیت ١٠٦ سورة المائدہ ٥) اس آیت میں ہے کہ تمہارا دو عادل آدمی ہو۔(٣) اور حدیث میں ہے ۔عن عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان رسول اللہ رد شھادة الخائن والخائنة وذی الغمر علی اخیہ ورد شھادة القانع لاھل البیت واجازھا لغیرھم (ابو داؤد شریف ، باب من ترد شھادتہ ،ص ١٥١ ،نمبر ٣٦٠٠) اس سے معلوم ہوا کہ عادل کی گواہی قبول کرنی چاہئے ۔اور خائن اور فاسق کی گواہی نہیں قبول کرنی چاہئے۔لیکن نکاح کا معاملہ تھوڑا آسان ہے کہ اکثر و بیشتر گواہ بنتا ہے لیکن قاضی کے سامنے شادی کی گواہی دینے کی ضروت نہیں پڑتی ۔اس لئے فاسق بھی گواہ بن 

Flag Counter