مسئلہ:- بعد تکمیلِ بیع کے اگر قیمت میں کچھ رعایت کردی جائے خواہ بائع کی جانب سے یعنی تخفیف کر دی جاوے یا مشتری کی جانب سے یعنی بڑھا دی جاوے، یہ درست ہے۔ اسی طرح جو مول لی ہے اس میں کچھ بیشی کر دی جاوے ، یہ بھی جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اکثر جگہ جو دستور ہے کہ بعد سودا لینے کے بائع سے کچھ اور مانگ لیتے ہیں بعض اس کو رونگا کہتے ہیں اور بعضے اس کو لبھاؤ بولتے ہیں، اگر بائع خوشی سے دے دے تو کچھ مضائقہ نہیں۔
مسئلہ:- بعضے لوگ جانوروں کو کھلانے کے لئے کچھ کھیتی گیہوں یا جَو وغیرہ خرید لیتے ہیں ، اس کو خوید کہتے ہیں، تو یہ جائز ہے، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔مگر بعضے جو یہ شرط ٹھہرا لیتے ہیں کہ بعد کاٹنے کے بائع اس کو دوبارہ پانے دے اور اس سے جو دوبارہ پیدا وار ہوگی اس کو بھی ہم ابھی خریدتے ہیں ، سو اس صورت میں اوّل تو ایک جزو بیع کا موجود نہیں، دوسرے پانی دینا بائع کے ذمہ رکھا گیا ہے، جو شرطِ فاسد ہے، اس لئے بیع ناجائز ہے۔
مسئلہ:- بعض جگہ بوروں میں بھرا ہوا غلّہ کسی خاص نرخ سے اس طرح خریدتے ہیں کہ مع بوروں کے وزن کر لیا اور ان میں سے ایک بورا کالی کر کے تمام بوروں کو ہم وزن قرار دے کر حساب کر کے اس قدر منہا کر دیا، یہ جائز نہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ بوروں کے وزن میں کمی بیشی ہو۔ اگر ایسی ضرورت ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس حساب سے جس قدر وزن غلّہ کا قرار پایا ہے اس وزن سے معاملے کو متعلق نہ رکھیں بلکہ بالقطع یہ کہہ دیا جائے کہ اس مجموعۂ غلّے کے یہ دام ہیں، خواہ بوروں میں جس قدر سمجھا گیا ہے اسی قدر ہو یا اس سے کم وزیادہ ہو، اور طرفین اس پر راضی ہوجائیں، اس طرح درست ہے۔
مسئلہ:- بعض جگہ غلّہ کَھتّوں ۱؎ میں بھراہوتا ہے، صرف نمونہ دکھلا کر اس کو فروخت کر دیتے ہیں ، اور خریدار دوسرے کے ہاتھ اسی طرح فروخت کر دیتا ہے، بعض اوقات یہ سلسلہ دور تک چلتا ہے، یہ جائز نہیں، لیکن دو شرط سے جائز ہوسکتا ہے۔
اوّل:-یہ کہ گو اپنے حساب سے اس کو ایک خاص مقدار سمجھ رکھا ہے، مگر معاملہ اس وزن پر نہ کریں بلکہ یوں کہیں کہ جس قدر غلّہ اس میں مدفون ہے وہ اتنے کا ہے۔
دوسرے:-یہ کہ خریدارِ اوّل اس کَھتّہ پر قبضے کر لے اور پھر وہ بھی خریدارِ آئندہ کے ہاتھ ان ہی شرطوں کے موافق فروخت کرے، لیکن اگر بتلائی ہوئی مقدار سے کچھ کمی بیشی نکل آئے تو کوئی جواب دہ نہیں ہے۔
سود کا بیان
اس کے مسائل بہت نازک ہیں، اکثر لوگ باوجود نیک نیتی کے اس گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے اوّل ایک قاعدہ کلیہ لکھا جاتا ہے اس کے سمجھ لینے سے