اس کی کاروائی دوسری جگہ سے ہوسکے تو خیر ورنہ اس کو جس قدر پانی کی حاجت ہے تم خود نکال کر یا نکلوا کر اس کو حوالے کرو۔ البتہ اپنے کھیت یا باغ کو اپنی دینا بدون اس شخص کی اجازت کے دوسرے لوگوں کو جائز نہیں، اس سے ممانعت کر سکتا ہے۔ یہی حکم ہے خود رَو گھاس کا۔ اور جس قدر نباتات بے تنہ ہیں سب گھاس کے حکم میں ہیں۔ البتہ تنہ دار درخت زمین والے کا مملوک ہے۔
مسئلہ:- اگر ایک شخص دوسرے شخص کے کنویں یا نہر سے کھیت کو پانی دینا چاہے اور وہ اس سے کچھ قیمت لے تو جائز ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، مشائخِ بلخ نے فتویٰ جواز کا دیا ہے۔
مسئلہ:- جو پانی برتن یا مَشک میں بھر لیا جائے اس میں دوسرے شخص کا کوئی استحقاق نہیں، البتہ اگر پیاس سے بے قرار ہوجاوے تو زبردستی بھی چھین لینا جائز ہے، جبکہ پانی والے کی حاجت سے زائد موجود ہو اور بقیمت بھی نہ دیتا ہوں۔
نشہ دار چیزوں کا بیان
مسئلہ:- جو چیز پتلی بہنے والی نشہ دار ہو خواہ شراب ہو یا تاڑی یا اور کچھ، اور اس کے زیادہ پینے سے نشہ ہوجاتا ہو، اس کا ایک قطرہ بھی حرام ہے، اگرچہ اس قلیل مقدار سے نشہ نہ ہو۔ اسی طرح دوا میں استعمال کرنا خواہ پینے میں یا لیپ کرنے میں بھی ممنوع ہے، خواہ وہ نشہ دار چیز اپنی اصل ہیئت پر رہے، خواہ کسی تصرف سے دوسری شکل ہوجاوے، ہر حال میں ممنوع ہے۔ یہاں سے انگریزی دواؤں کا حال معلوم ہوگیا ، جن میں اکثر اس قسم کی چیزیں ملائی جاتی ہیں۔
مسئلہ:- اور جو چیز نشہ ہو مگر پتلی نہ ہو بلکہ اصل سے منجمد ہو، جیسے تمباکو، جائفل ، افیون وغیرہ اس کا حکم یہ ہے کہ مقدار بالفعل نشہ یا اس سے ضررِ شدید ہو تو وہ حرام ہے، اور جو مقدار نشہ نہ لائے، نہ اس سے کوئی ضرر پہنچے وہ جائز ہے۔ اور اگر ضماد وغیرہ میں استعمال کیا جائے تو کچھ بھی مضائقہ نہیں۔
رہن کا بیان
مسئلہ:- مرہون چیز سے مرتہن کا منتفع ہونا اگرچہ باجازتِ راہنہو جیسا کہ آج کل رواج ہے، حلال نہیں۔ اس کا پورا بیان مسائلِ سود میں گزر چکا ہے۔
مسئلہ:- اگر زید نے عمرو سے کوئی زیور یا برتن وغیرہ عاریت لے کر رہن کر دیا اور عمرو اپنی ضرورت سے مرتہن کو روپیہ دے کر وہ شے چھڑا لایا تو عمرو اس روپے کا مطالبہ زید سے کر سکتاہے۔