مسئلہ:- بعضے لوگ حقِ مرتہنی کو بیع کر دیتے ہیں، یہ بالکل باطل ہے۔ اوّل تو بیع مرتہنی کوئی قابلِ بیع چیز نہیں، دوسرے مرتہن کو کوئی تصرف کرنا مرہون میں جائز نہیں۔ البتہ اگر راہن رضامند ہو تو اس کی یہ صورت ہے کہ مرتہنِ ثانی بقدر زرِ رہن کے راہن کو قرض دے دے اور وہ مرتہنِ اوّل کو یہ روپیہ دے کر اپنا رہن چھڑا لے اور پھر اس کو مرتہنِ ثانی کے پاس بعوض اس کے قرضے کے رہن رکھ دے۔
وصیت اور میراث کے اَحکام
مسئلہ:- تجہیز وتکفین بطریقِ متوسط و ادائے دیون سے، جس میں مہر بھی داخل ہے، جو بچے اس کی تہائی تک وصیت جائز ہے، زید میں باطل ہے۔ البتہ بالغ ورثاء صرف اپنے حصے میں زائد کی اجازت دے سکتے ہیں۔ اور نابالغ کے حصے میں نہ تو بالغوں کو حقِ اجازت ہے اور نہ خود نابالغ کی اجازت معتبر ہے۔
مسئلہ:- اسی طرح جس شخص کچھ میراث ملے گی اس کو کچھ زائد دینے کے لئے وصیت کرنا باطل ہے۔ اور بالغ ورثاء کی اجازت اپنے حصے میں یہاں بھی درست ہے۔
مسئلہ:- وصیت کر کے اس سے رجوع کر لینا اور ان کو منسوخ کر دینا جائز ہے۔
مسئلہ:- مرض الموت یعنی جس ۱؎ بیماری میں یہ شخص جانبر نہ ہو اور جانبر ہونے کے ظاہراً امید بھی نہ ہو، ہبہ کرنا یا قرض معاف کرنا یا بہت ارزاں قیمت پر کوئی چیز فروخت کر ڈالنا یہ سب وصیت ہے۔ نہ ثلث سے زائد میں جائز اور نہ وارث کے لئے جائز ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اکثر عورتیں مرنے کے وقت جو خاوند کو مہر معاف کر دیتی ہیں بالکل لغو ہے۔ البتہ اس عورت کے بالغ وارث اگر جائز رکھیں تو ان کے حصے میں معافی ہوجائے گی۔
مسئلہ:- بعد تقدیم مصارفِ تکفین وادائے قرض وانفاذِ وصیت جو مال بچے وہ سب ورثاء کا حقِ مشترک ہے۔ خواہ کپڑا ہو یا برتن یا کتابیں یا اثاث البیت یا روپیہ یا جائیداد سب مشترک ہے۔ ایک شخص کو اس میں تصرف کرنا خواہ اپنے قبضے واستعمال میں لا کر، خود دوسرے کو ثواب کے لئے یا دنیا کی مصلحت کے لئے دے کر بالکل ناجائز ہے۔ اگر ایسا کیا گیا جس طرح ہندوستان میں عام رواج ہے کہ بعد میّت کے جو سرپرستِ خاندان ہوتا ہے وہ کچھ ایصالِ ثواب کے نام سے کچھ فضول رسموں میں اس ترکہ سے صرف کرتا ہے۔ سو ایسا کرنے سے اس شخص کو اپنے حصے میں سے تمام روپیہ بھرنا پڑے گا۔ البتہ بالغ ورثاء کے اتفاق سے جو صَرف ہو وہ ان سب کے حصے پر پڑے گا اور جن کی صاف اجازت نہیں یا جو نابالغ ہیں ان کا حصہ تقسیم میں پورا دینا پڑے گا۔