و زیادہ کر کے بیچنا منظور ہو مگر حیلۂ جواز کے لئے کم جانب میں ایک پیسہ یا ایک پائی مثلاً ملا لیں کہ جس کی قیمت اس قدر نہ ہو جس قدر دوسری طرف زیادہ مال ہے یہ بھی مکروہ ہے۔ (کذا فی الوقائع) اور معاملات میں مکروہ سے مراد مکروہِ تحریمی ہے (کذا قالوا) امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ:
’’میرے دل میں ایسی بیع پہاڑ کے برابر گراں معلوم ہوتی ہے‘‘۔(کذا فی فتح القدیر)
اسی طرح ایک صورت بیع عینہ کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ زید نے عمرو سے دس روپے قرض مانگے، عمرو نے کہا قرض نہیں دیتا مگر ہاں دس روپے کا مال بارہ میں لے جاؤ، اور دس روپے کو کسی کے ہاتھ فروخت کرکے اپنی کاروائی کر لو، اور جب تمہارے پاس ہو بارہ روپے زرِ ثمن مجھ کو ادا کردینا ، یہ بھی مکروہ ہے (کذا فی الہدایہ) سود خواروں نے یہ صورت اختراع کی ہے(کذا فی الکفایہ) امام محمدؒ اس کے حق میں بھی وہی الفاظ فرماتے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔ اور حدیث شریف میں بھی اس کی مذمت آئی ہے۔ اور پیشگوئی فرمائی گئی ہے کہ جب تم ایسا کرو گے ذلیل وخوار ہوگے اور غیر قومیں تم پر غالب آجائیں گی۔
(کذا فی فتح القدیر)
مسئلہ:- بعض لوگوں نے مرہون سے منتفع ہونے کا یہ حیلہ نکالا ہے کہ مثلاً اسّی روپے کو ایک زمین رکھی، اور راہن سے یہ شرط ٹھہرائی کہ یہ زمین ہم کو ایک روپیہ سالانہ کرایہ پر دے دو اور کرایہ زرِ زمین میں ادا ہوتا رہے گا ، یہاں تک کہ اسّی برس میں روپیہ ادا ہوجائے گا اور زمین چھوڑ دی جائے گی۔ اور اس کے قبل چھڑانا چاہیں تو اسی حساب سے جس قدر روپیہ باقی رہے گا وہ لے کر چھوڑ دیویں گے، چونکہ ایک روپیہ سالانہ کرایہ پر زمین کو دینا محض اس قرضے کے دباؤ سے ہے اور اوپر یہ قاعدہ معلوم ہوچکا ہے کہ جو رعایت بوجہ قرض کے ہو وہ حرام ہے، اس لئے یہ معاملہ حرام اور انتفاع خبیث ہوگا۔
سلم یعنی بدنی کا بیان
اس کے جواز کی چند شرطیں ہیں:
٭…روپیہ پورا پیشگی دیا جائے۔
٭… جس چیز پر معاملہ ٹھہرا ہے اس کو مصرّح اور مشرّح طور پر بیان کر دیا جاوے کہ پھر احتمال اختلاف کا نہ رہے۔
٭… نرخ معین ہوجائے۔مثلاً کہا جائے کہ ’’بیس سیر یا پچّیس سیر کے حساب سے لیں گے‘‘ اور اگر یوں کہا کہ’’ جو نرخ اس وقت ہوگا اس سے پانچ سیر مثلاً زیادہ لیں گے‘‘ یہ جائز نہیں۔
٭… اور اگر اس چیز کے لادنے اور اُٹھانے میں مشقت ہو تو اس کے ادا کرنے کی جگہ بھی بیان کرنا چاہئے۔ مثلاً غلّہ خرمن میں لیا جائے گا یا بائع کے مکان پر لیا جائے گا یا مشتری کے مکان پر پہنچا دیا جائے گا۔
٭… کم از کم ایک ماہ کی میعاد مقرر ہونا چاہئے۔ اس سے کم نہ ہو، زیادہ کا