شرکت کا بیان
شرکت دو طرح کی ہے:
ایک شرکتِ املاک کہلاتی ہیں ، جیسے ایک شخص مر گیا اور اس کے ترکے میں چند وارث شریک ہیں یا روپیہ ملا کر دو شخصوں نے ایک چیز خرید کی یا ایک شخص نے دو شخصوں کو ہبہ کردی۔ اس کا حکم یہ ہے کہ کسی کو کوئی تصرف بلا اجازت دوسرے شریک کے جائز نہیں۔
دوسری شرکتِ عقود ہے۔ یعنی دو شخصوں نے باہم معاہدہ کیا کہ ہم تم شرکت میں تجارت کریں گے۔ اس شرکت کے اَحکام واقسام یہ ہیں:-
مسئلہ:- اس قسم کی ایک شرکت شرکتِ عنان ہے۔ یعنی دو شخصوں نے تھوڑا تھوڑا روپیہ بہم پہنچا کر اتفاق کیا کہ اس کا کپڑا یا غلّہ یا ور کچھ خرید کر تجارت کریں اور میں یہ شرط ہے کہ رائس المال نقد ہو خواہ روپیہ یا اشرفی یا پیسے۔ سو اگر دونوں آدمی کچھ اسباب غیر نقد شامل کر کے شرکت سے تجارت کرنا چاہیں یہ شرکت صحیح نہ ہوگی۔
مسئلہ:- اس شرکتِ عنان میں ہر شریک کو مالِ شرکت میں ہر قسم کا تصرف متعلق تجارت کے جائز ہے، بشرطیکہ خلافِ معاہدہ نہ ہو۔ لیکن ایک شریک کا قرض دوسرے سے نہ مانگا جائے گا۔
مسئلہ:- اگر بعد قرار پانے اس شرکت کے کوئی چیز خریدی نہیں گئی اور تمام مالِ شرکت یا ایک شخص کا مال تلف ہوگیا تو شرکت باطل ہوجائے گی۔ اور اگر ایک شخص بھی کچھ خرید کر چکا ہے اور دوسرے کا مال ہلاک ہوگیا تو شرکت باطل نہ ہوگی۔ مالِ خرید دونوں کا ہوگا۔ اور جس قدر اس میں میں دونوں شریک کا حصہ ہے اس حصے کے موافق زرِ ثمن اس دوسرے سے وصول کر لیا جاوے گا۔ مثلاً ایک شخص کے دس روپے تھے اور دوسرے کے پانچ۔ دس روپے والے نے مال خرید لیا تھا اور پانچ روپے والے کے روپے ضائع ہوگئے۔ سو پانچ روپے والا اس مال میں ثلث کا شریک ہے اور دس روپے والا اس سے دس روپے کا ثلث نقد واپس کرے گا۔ یعنی تین روپے پانچ آنے چار پائی۔ اور آئندہ یہ مال شرکت پر فروخت ہوگا۔
مسئلہ:- اس شرکت میں دونوں شخصوں کو مال کا مخلوط کرنا ضروری نہیں۔ صرف زبانی ایجاب وقبول سے یہ شرکت منعقد ہوجاتی ہے۔
مسئلہ:- نفع نسبت سے مقرر ہونا چاہئے۔ یعنی آدھا آدھا یا تین تہائی مثلاً اگر یوں ٹھہرا کہ ایک شخص کو سو روپے ملیں گے باقی دوسرے کو، یہ جائز نہیں۔
مسئلہ:- ایک قسم شرکت کی شرکتِ صنائع کہلاتی ہیں۔ اور اسے شرکتِ تقبل بھی کہتے ہیں۔ جیسے دو درزی یا دو رنگریز باہم معاہدہ کر لیں کہ جو کامجس کے پاس آوے اس کو قبول کرے اورجو مزدوری ملے وہ آپس میں آدھوں آدھ یا