حاصل نہ ہوگا۔
مسئلہ:- اگر مشتری و بائع کے سوا کسی تیسرے شخص کی رائے پر منظوری و نامنظوری بیع کی رکھی جاوے ، یہ بھی جائز ہے۔
شئے مبیع میں عیب نکلنے کا بیان
حدیث:- ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ: جو شخص کوئی چیز عیب دار بیچے اور اس عیب کو بیان نہ کردے تو وہ ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا، یا یوں فرمایا کہ : ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔
مسئلہ:- اگر بعد خریدنے کے خریدار کو کسی عیب پر اطلاع ہوئی تو اس کو اختیار ہے خواہ رکھے، خواہ واپس کر دے۔ البتہ اگر بیچنے کے وقت بائع نے یوں کہہ دیا کہ ’’اس میں جو کچھ عیب ہو میں اس کا ذمہ دار نہیںہوں، خواہ تم خریدو یا نہ خریدو‘‘ ۔ اور اس پر بھی خریدار رضامندہوگیا ، پھر خواہ کچھ ہی عیب اس میں نکلے ، واپسی کا اختیار نہ ہوگا۔ اگرچہ عیبوں کا الگ الگ نام نہ لیا جائے۔
بیع باطل اور فاسد کا بیان
مسئلہ:- بعض جگہ دستور ہے کہ تالاب کا ٹھیکہ ماہی گیروں کو دے دیا جاتا ہے، اور دوسروں کو اس میں سے مچھلیاں نہیں پکڑنے دیتے، یہ بالکل حرام ہے۔ اور ایسی بیع بالکل درست نہیں، محض باطل ہے۔ نہ وہ قیمت زمیندار کو حلال ہوگی، نہ ٹھیکیداروں کو جائز ہوگا کہ دوسروں کو مچھلیاں پکڑنے سے منع کریں، بلکہ سب کو مچھلیاں پکڑنے کا شرعاً حق حاصل رہے گا۔ البتہ وہ ٹھکیدار اس میں سے پکڑ کر جو فروخت کرے گا، چونکہ پکڑنے سے اس کی مِلک میں داخل ہوگئی، یہ بیع درست ہوگئی۔ لیکن اگر کسی غیر نے مچھلیاں پکڑ لیں اور ٹھیکیدار نے اس سے چھین کر فروخت کیں تو نہ ان کا بیچنا درست ہے، نہ ان کا خریدنا درست ہے اس کے لئے جس کو حال معلوم ہے۔
مسئلہ:- اسی طرح کھڑی ہوئی گھاس بیچنا درست نہیں، البتہ اگر اس شخص نے گھاس جمنے سے پہلے خاص کر گھاس جمنے کی نیت سے اپنی زمین کو پانی دیا ہو اور اس کا اہتمام کیا ہو تو حسبِ روایت ذخیرہ ومحیط اس وقت وہ گھاس اس کی مِلک میں داخل ہوگی، اور بیع بھی درست ہوگی۔ اور جس قدر خود رَو نباتات غیر تنہ دار ہیں سب کا یہی حکم ہے۔ اور جو درخت تنہ دار ہے جیسے شیشم، کیکر، ڈھاکہ اگرچہ خودرَو ہو، بقول امام محمدؒ اس کا یہ حکم نہیں ہے بلکہ اس کا بیچنا درست ہے۔ پس اکثر جگہ جو رواج ہے کہ زمیندار لوگ کھڑی گھاس بیچ ڈالتے ہیں یا دوسروں کو اس زمین سے گھاس کاٹنے سے منع کرتے ہیں یا رعایا سے چرائی کا عوض لیتے ہیں، یہ سب ظلم ہے۔