Deobandi Books

صفائی معاملات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

14 - 33
سو ضمان لازم نہ ہونے سے مباح وحلال ہونا ثابت نہیں ہوتا۔دیکھئے! چور کا ہاتھ کاٹا جانا ضمان کو ساقط کر دیتا ہے، مگر سرقہ کو مباح وحلال نہیں کرتا، چنانچہ ہدایہ اور اس کے حاشیہ غایۃ البیان کی عبارت نقل کی جاتی ہے:
	ولیس للمرتھن ان ینتفع بالرھن لا باستخدام ولا سکنی ولا لبس الا ان یأذن لہ المالک لان لہ حق الحبس دون الانتفاع ولیس لہ ان یبیع الا بتسلیط من الراھن ولیس لہ ان یواجر او یعیر لانہ لیس لہ ولایۃ الانتفاع بنفسہٖ فلایملک تسلیط غیرہ علیہ فان فعل کان متعدیا ولایبطل عقد الرھن بالتعدّی۔ (ہدایۃ)
	لان المالک رضی بحبسہ لا بانتفاعہ فاذا استعملہ بوجہ من الوجوہ کان غاصبا وضمن قیمتہ بالغۃ ما بلغت فان کان باذن المالک فلا ضمان علیھا لان الحجر لحقہ وقد رضی بہ۔ (غایۃ البیان)
	قلت قد سلک الاستخدام والسکنی واللبس والبیع والاجارۃ والاعارۃ فی سلک واحد حیث اجاز کل واحد منہا باذن المالک وظاہر انہ لایباح ثمن المرھون بعد بیع مع بقاء أصل الدین فکذٰلک حکم سائر ما ذکر۔
اور اگر کسی عبارت میں حلت یا اِباحت کا لفظ پایا جاوے تو وہ اس صورت میں ہے کہ وقت عقد کے نہ انتفاع کی شرط ٹھہری ہو، نہ وہاں اس کا رواج ہو، نہ قرض کا دباؤ ہو۔ بلکہ ابتدائً اور اتفاقاًتبرعاً اجازت انتفاع کی ہوجاوے، ایسی حالت میں انتفاع درست ہے۔ لیکن اس صورت میں وہ شے رہن سے خارج ہوجاوے گی، محض عاریت رہ جاوے گی۔ چنانچہ اگر حالتِ استعمال میں شے تلف یا خراب ہوجاوے تو ضمان لازم نہ آوے گا، اور قرضے میں محسوب نہ ہوگا، قلت وعلیہ یحمل حدیث ’’الظہر یرکب بنفقتہ۔۔۔۔۔ الخ‘‘۔ اس کو خوب سمجھ لینا چاہئے، بعض لکھے پڑھے لوگ اس آفت میں مبتلا ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کے صدقے ہر بلا سے محفوظ رکھے۔
مسئلہ:- زمینداروں میں ایک معاملہ بنام بیع بالوفاء کے مشہور ہے اور اس لفظ کا استعمال دو صورتوں میں کرتے ہیں، جن میں ہر ایک کا جدا حکم ہے۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ زید نے عمرو سے کہا کہ تم ہماری زمین یا باغ سو روپے کے عوض میں رکھ لو، مثلاً ایک سال کے اندر میں نے زرِ رہن ادا کر دیا تو اپنی زمین وغیرہ واپس کرلوں گا اور اگر اس مدّت کے اندر روپیہ نہ دے سکا تو بس اسی روپیہ میں تمہارے ہاتھ بیع ہے، اس صورت کو بعض عوام بیع بالوفاء کہتے ہیں، مگر فقہاءؒ کے کلام میں جو یہ لفظ مستعمل ہے اس سے یہ صورت مراد نہیں، بلکہ اگلی صورت مراد ہے۔ بہر حال اس کا نام جو کچھ بھی رکھا جائے، حکم اس کا یہ ہے کہ یہ معاملہ بالکل باطل اور حرام ہے، بلکہ بوجہ تعلیق الملک بالخطر کے قمار میں داخل ہے جس کی حرمت قرآنِ مجید میں منصوص ہے، اور خاص اس صورت کی ممانعت حدیث شریف میں آئی ہے:
وعن سعید بن المسیّب ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایغلق الرھن من صاحبہ الذی رہنہ ، لہ غنمہ 
Flag Counter