Deobandi Books

صفائی معاملات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

13 - 33
مسئلہ:- بعض لوگ اپنا روپیہ جو انہوں نے کسی تجارت کی کوٹھی میں جمع کیا ہے کم یا زیادہ روپیہ کے عوض دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں، اس میں دو خرابیاں ہیں: ایک تو یہ کہ دست بدست نہیں اور روپیہ کے عوض جو روپیہ فروخت کیا جائے اس میں دونوں اَمر شرط ہیں، اس لئے جائز نہیں۔ اگر برابر سرابر روپے کے مقابلے میں دیا جائے تو بتأویلِ حوالہ یہ معاملہ درست ہے۔ اسی طرح نوٹ جو بکتا ہے وہ بھی حقیقت میں حوالہ، وہ اسی  شرط سے درست ہے کہ جتنے کا نوٹ ہو اتنے ہی کا فروخت ہو، ورنہ کمی بیشی سود ہوجائے گا۔
قاعدہ ضروریہ:- قرض دینے والے کو قرض لینے والے سے قرض کے دباؤ یا رعایت سے جو نفع حاصل ہو وہ سود ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ: جب کوئی شخص کسی کو قرض دے، پھر وہ قرض لینے والا اس شخص کو کچھ ہدیہ دے یا گھوڑے وغیرہ پر سواری دے تو اس شخص کو چاہئے کہ نہ سوار ہو اور نہ ہدیہ قبول کرے۔ ہاں! اگر پہلے سے ان دونوں میں اس قسم کی رسوم جاری ہوں تو مضائقہ نہیں۔ روایت کیا اس کو ابنِ ماجہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں۔
اور ان ہی سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسم نے کہ: جب ایک شخص دوسرے کو قرض دے تو اس کو چاہئے کہ کوئی ہدیہ نہ لے۔ روایت کیا اس کو بخاری نے اپنی تاریخ میں۔ اسی طرح ہے منتقٰی میں، اور ابوبردہ بن ابوموسیٰ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں مدینہ طیبہ آیا اور عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ سے ملا، اور انہوں نے فرمایاکہ: تم ایسی سرزمین میں رہتے ہو جہاں سود کی کثرت ہے، تو جب کسی شخص کے ذمے تمہارا کچھ ہو اور وہ تمہارے پاس بھوسہ، جَو یا گھاس کی گٹھڑی بھیجے تو تم اس کو مت لینا کیونکہ یہ سود ہے۔ روایت کیا اس کو بخاری نے۔ یہ تینوں حدیثیں مشکوٰۃ سے نقل کی گئیں۔ اس قاعدے سے بہت سے مسائل معلوم ہوسکتے ہیں۔ بطور تمثیل کے بعضے مذکور ہوتے ہیں:
مسئلہ:- بعض مقروض دکاندار بوجہ رعایت قرضے کے قرض خواہ کو بلا نفع سودا دیتے ہیں، قاعدئہ مذکور سے معلوم ہوا کہ یہ درست نہیں۔
مسئلہ:- اسی قاعدے سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ زمینداروں میں جو ایک عام عادت ہے کہ زمین صحرائی یا مکان رہن میں لے کر اس سے منتفع ہوتے ہیں، یہ ہر گز جائز نہیں۔ اور بعض کتابوں سے جو شبہ پڑ گیا ہے وجہ اس کی غلط فہمی ہے۔ مقصود اس عبارت سے اباحتِ انتفاع نہیں، کیونکہ یہ عمل قاعدئہ مذکور کے خلاف ہے جس کو فقہاء قبول کر کے یہ کلیہ مقرر کر چکے ہیں کہ:
’’کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَھُوَ رِبٰوا‘‘
بلکہ معنیٰ اس عبارت کے یہ ہیں کہ بدون اذنِ راہن اگر مرتہن منتفع ہو تو اس پر بوجہ غاصبہونے کے ضمان لازم آتا ہے، اذن دینے سے ضمان لازم نہیں آوے گا، 
Flag Counter