Deobandi Books

صفائی معاملات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

12 - 33
مضائقہ نہیں۔مگر قرض لینے کے وقت یہ شرط ٹھہرانا کسی حال میں درست نہیں کہ ایک سیر کا سوا سیر یا اس سے زیادہ دیا جائے گا۔ اگر بالفرض کوئی ایسی شرط ٹھہرائی تو یہ سود ہوگا، کیونکہ یہاں مبادلہ مقصود ہے اور جوازِ مبادلہ کی شرائط یہاں مفقود ہیں۔ البتہ اگر محض رعایت کر کے جیسا لیا تھا اس سے اچھا کر دیا یا دوسرے شخص نے رعایت کر کے اس سے گھٹیا قبول کر لیا یا وقت مطالبے کے یہ کہا ہمارے پاس گیہوں کا آٹا اس وقت نہیں ہے اس کے عوض مکئی کا لے خواہ کم ہو یا زیادہ اور دوسرا رضامند ہوگیا اور جس وقت یہ رضامندی ہو اسی وقت حساب بے باق کر دیا تو جائز ہے۔ اگر بعد اس رضامندی کے نصف کا عوض غیر جنس سے دیا اور نصف کے غیر جنس موجود ہو تو چاہئے کل کے معاوضے میں غیر جنس نہ ٹھہراویں بلکہ یوں کہیں کہ تم اپنے نصف حقِ واجب کے عوض یہ غیر جنس لے لو اور نصف کا مطالبہ بدستور باقی وقائم رہے گا، پھر اس نصف کے عوض اگر عین جنس دینا چاہیں تب تو کچھ کلام ہی نہیں، اور اگر غیر جنس دینا چاہیں تو اس کے لئے رضامندیٔ جدید کی ضروری ہوگی۔ اور اس کے لئے بھی ضروری ہوگا کہ جس وقت باہم رضامندی ہوئی ہے اسی وقت بے باق کر لیا جاوے، غرض یہ کہ کل حق کے عوض غیر جنس کا طے ہوجانا اور پھر کچھ وصول ہونا اور کچھ رہ جانا جائز نہیں۔
مسئلہ:- اکثر دستور ہے کہ سرسوں کے بدلے سرسوں کا تیل لیتے ہیں، سو اس کا حکم یہ ہے کہ سرسوں میں جو تیل نکلے گا اگر وہ بالیقین اس تیل سے کم ہو تب تو یہ مبادلہ درست ہے، اور اگر وہ تیل سرسوں میں سے نکلنے والا اس تیل سے زیادہ ہو یا برابر ہو یا برابری اور کمی بیشی کا حال معلوم نہ ہو تو یہ مبادلہ درست نہیں۔ اور اگر ایسا ہی بدلنا ضروری ہو تو اس کے جواز کا حیلہ وہی ہے جو اُوپر مذکور ہے کہ سرسوں کو بعوض روپیہ یا پیسوں کے خرید کیا جاوے ، پھر ان پیسوں یا روپے کا تیل کرید لیا جاوے، گو یہ روپیہ پیسہ نقد نہ دیا جائے محض زبانی معاملہ بھی درست ہوجائے گا۔
مسئلہ:- اگر بینکوں میں سود کا لین دین ہوتا ہے اس میں روپیہ داخل کر کے حصہ دار بن کر اس کا نفع لینا درست نہیں، کیونکہ کارکنان بینک مالکان کے وکیل ہیں، اور وکیل کا فعل مثل فعلِ مؤکل ہے۔ گویا اس روپے والے نے خود لین دین سود کا کیا۔ البتہ جس کارخانے میں سود کا لین دین نہ ہو اور نہ کوئی فاسد معاملہ ہو اس سے معاملۂ مضاربت کرنا درست ہے۔
مسئلہ:- بعض سودی بینکوں میں روپیہ امانۃً جمع کر دیتے ہیں اور اس کا نفع نہیں لیتے۔ سو چونکہ بالیقین بینک میں روپیہ بعینہٖ محفوظ نہیں رہتا، کاروبار میں لگا رہتا ہے اس لئے وہ امانت نہیں رہتا بلکہ قرض ہوجاتا ہے، گو اس شخص نے سود نہیں لیا مگر سود لینے والوں کی اعانت قرض سے کی، اور اعانت گناہ کی گناہ ہے، اس لئے داخل کرنا بھی درست نہیں۔

Flag Counter