Deobandi Books

صفائی معاملات - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

11 - 33
مسئلہ:- اکثر پرانے اور نئے گیہوں آپس میں بدلے جاتے ہیں، سو اس کے درست ہونے کی دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ دونوں برابر ہوں، دوسرا یہ کہ دست بدست ہوں۔ اگرچہ ایک جانب گیہوں بیش قیمت ہوں اور دوسری جانب کم قیمت۔ جب بھی زیادتی وکمی جائز نہیں۔ کیونکہ یہاں جنس اور قدر دونوں متحد ہیں، اس لئے نہ کمی بیشی درست ہے نہ ادھار۔
مسئلہ:- اگر کسی مقام پر بوجہ اختلافِ نرخ کے ایک جنس کی چیزوں کو کمی بیشی کیس اتھ بدلنا منظور ہو۔ مثلاً ایک شخص کے پاس بیس سیر عمدہ والے گیہوں ہیں اور دوسرے کے پاس چالیس سیر خراب والے گیہوں ہیں اور ان کو باہم بدلنا چاہتے ہیں ۔ یہاں برابر بدلنے میں ایک کا نقصان ہے اور کمی بیشی بوجہ اتحاد کے جائز نہیں۔ اس کے جائز ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے ہاتھ اپنے گیہوں بعوض روپے کے فروخت کردے، گو روپیہ موجود نہ ہو، جب وہ روپیہ اس کے ذمے واجب الاداء ہوجاوے تو اس سے کہے کہ اس روپے کے عوض ہم کو یہ گیہوں دے دو اور وہ اپنی رضا مندی سے دے دے ، اس طرح درست ہو جاوے گا۔
مسئلہ:- بعض اوقات مستورات گیہوں کو گیہوں کے آٹے کے برابر بدلتی ہیں اور گیہوں کے ساتھ اس کی پسائی کی اجرت بھی دے دی جاتی ہے یہ جائز نہیں، خواہ پسائی دیں یا نہ دیں۔ اسی طرح گیہوں اور ستو کا مبادلہ آٹے اور ستو سے جبکہ یہ ایک ہی قسم کے غلّے سے ہوں جائز نہیں، اگرچہ برابر سرابر اور دست بدست ہوں، اس کی وجہ عوام کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ البتہ اگر ایسی ضرورت واقع ہو تو وہی تدبیرِ مذکور کی جاوے کہ ایک چیز کو داموں کے عوض فروخت کر دیں، پھر انہی داموں سے دوسری چیز خرید کرلیں۔
مسئلہ:- اُدھار اس جگہ ناجائز ہے جہاں دو چیزوں میں ادلا بدلی مقصود ہو، جیسے اوپر کے دو مسئلوں میں کہ گیہوں یا مکئی یا پرانے اور نئے گیہوں میں مبادلہ واقع ہوا ہے، ان میں اُدھار درست نہ ہوگا۔اور جہاں ادلا بدلا مقصود نہ ہو بلکہ اپنے پاس ایک شئے کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اُدھار لینے سے محض یہ مقصود ہو کہ اس وقت اپنا کام نکال لیا جائے اور جب اپنے پاس ہوگا اس کو اس کا حق ادا کر دیں گے، س صورت میں اُدھار درست ہے۔ مگر اس کا حکم یہ ہے کہ جیسی چیز ادھار لی ہے ویسی ہی اور اتنی ہی ادا کر دی جائے، نہ کمی بیشی کی شرط ہے اور نہ دوسری مجلس کا ٹھہرانا درست ہے، اور نہ اچھی بُری کا فرق مقرر کرنا جائز ہے۔
مثلاً ایک شخص کے پاس اس وقت آٹا نہیں ، اپنے پڑوسی سے سیر بھر آٹا قرض لے لیا ہو، ظاہر ہے کہ اس کو خاص مبادلہ مقصود نہیں کیونکہ اگر اس کے پاس موجود ہوتا تو وہی پکا لیتا، بدلتا کیوں پھرتا؟ بلکہ محض اس وقت کی کاروائی مقصود ہے، اور جب اس کے پاس ہوگا، اس کا آٹا ادا کر دے گا، اس میں کوئی 
Flag Counter