حاصل یہ ہے کہ اس وقت لوگوں نے اجزائے دین کو مختصر کیا ہے کسی نے تو صرف عقائد کو لیا کہ ’’من قال لا الہ الا اﷲ دخل الجنۃ ‘‘ کو لے کر نماز وغیرہ سب کو اڑا دیا ۔ایسے لوگوں کا مقولہ ہے کہ سزا پاکر پٹ پٹا کر کسی وقت تو جنت میں ضرور چلے ہی جائیں گے ۔۔ تو ان لوگوں نے اعمال کوعملاً چھوڑ دیا ۔ بعض ایسے ہی کہ انہوں نے عقائد کے ساتھ اعمال کو بھی لیا لیکن اس میں سے معاملات کو عملاً خارج کردیا ۔ یعنی نماز روزہ وغیرہ کا اہتمام تو ہے لیکن لین دین میں اس کی ذرا پرواہ نہیں کہ یہ جائز ہوا یا ناجائز ہوا ۔ نیز آمدنی کے ذرائع میں اس کا بالکل خیال نہیں ۔
بعض وہ ہے کہ انہوں نے معاملات کو جزو شریعت قرار دیا لیکن اخلاق باطن کی درستی کو شریعت کا جزو نہ سمجھ کر کچھ ضروری نہ سمجھا ۔ بہت ہی کم افراد ہیں کہ وہ اس کا بھی اہتمام کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایسے بھی لوگ ہیں کہ ان کو دوسرے کی اصلاح کرتے ہوئے مدتیں گزر جاتی ہیں لیکن خود ان کے اخلاق سے لوگوں کو عام طور سے تکلیف ہوتی ہے ۔ اور ان کو اپنی حالت کی ذرا پرواہ نہیں ہوتی بلکہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم نے کیا حرکت کی اور ایسے تو بہت ہی ہیں کہ اگر راستے میں کوئی غریب مسلمان ان کو مل جائے تو ابتدا بالسلام کبھی نہ کریں گے بلکہ خود اس کے سلام کے منتظر رہیں گے ۔
بعض لوگ عقائد واعمال ومعاملات کے ساتھ اخلاق باطنہ کو بھی داخلِ شریعت سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے معاشرت کو شریعت سے خارج کر رکھا ہے ۔ کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارے آپس کے برتاؤ ہیں ۔ ان سے شریعت کو کیا غرض ؟ اگرچہ یہ ضروری ہے کہ یہ سب اجزاء مساوی نہیں ہیں تاہم واجب الرعایت سب ہیں تو اس قسم کے بہت سے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں کہ وہ دین دار بھی ہیں ان کے اخلاق بھی مثل تواضع وغیرہ درست ہیں لیکن معاشرت میں اکثر چھوٹی باتوں میں اس طرف التفات نہیں ۔ کہ ان سے دوسروں کو اذیت تو نہ پہنچے گی ۔ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہت زیادہ تکلیف پہنچ جاتی ہے لیکن اس طرف التفات نہیں ہوتا ۔ حالانکہ حدیث شریف میں بکثرت وارد ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف اسی قدر التفات اور ان کا بھی اتنا ہی اہتمام تھا ۔ جتنا کہ بڑی باتوں کا تھا۔
میں نے اس باب میں ایک رسالہ کی تالیف شروع کی ہے اس کا نام ’’آداب المعاشرت ‘‘ رکھا ہے ۔ اسی قسم کی بہت سی حدیثیں اس کے خطبے میں بھی جمع کردی ہیں ۔ آپ لوگ خدا تعالیٰ سے اس کے پورا ہونے کی دعا کریں ۔ ان احادیث کے دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ شریعت اسلام ایسے امور کو ہر گز نہیں رکھتی جن سے کسی کو ذرا بھی تکلیف یا کسی قسم کابھی بار پہنچے ۔ اس وقت یہ مرض ایسا علم ہوا ہے کہ جو لوگ اﷲ اﷲ کرنے والے اور ذاکر وشاغل بحق کہلاتے ہیں ان کو بھی اس کی پرواہ نہیں ہے اور انہوں نے بھی عملاً اس کو شریعت سے خارج کر رکھا ہے ۔