مقصد حیات |
ہم نوٹ : |
|
تو اس پر میں نے بھی ایک شعر بنایا ہے۔ میں نے کہا کہ اچھا اس شعر کے مقابلےمیں کون سا شعر آپ نے بنایا ہے، اس میں تو یہ تعلیم ہے کہ اللہ کو پانے کے لیے اللہ والوں کے پاس جاؤ، ان سے راہ و رسم قائم کرو۔ کہنے لگے کہ میرا شعر ویسا نہیں ہے جیسا آپ نے پڑھا لیکن سن لیجیے اچھا ہے ؎مرغ کھانے کی ہے یہی اِک راہ کھانے والوں سے راہ پیدا کر دیکھا آپ نے! حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر پیش کرتا ہوں جو اچانک یاد آگیا کہ دوستو! اپنی قیمت اپنے بنگلوں سے اور اپنی کاروں سے مت لگاؤ، کاروبار سے مت لگاؤ۔ یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ سے آپ کو کتنی محبت ہے۔ فرماتے ہیں کہ ؎ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسےرہے اور حسن کی دنیا کا حال بھی سن لیجیے۔ کسی شاعر کا شعر ہے اور بہت عمدہ ہے ؎ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے یعنی شکلیں بگڑگئیں، حسن و جمال سب جاتا رہا ؎کمر جھک کے مثل کمانی ہوئی کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی اللہ کا نام تمام لذاتِ کائنات کا کیپسول ہے دوستو! اللہ پر فدا ہوجاؤ۔ مولائے کائنات پر جو فدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو لیلائے کائنات اور دنیا بھر کی ساری مٹھائیاں، سارے کباب و بریانی کی لذت اپنے نام میں عطا فرماتے ہیں۔ ساری لذاتِ کائنات کا کیپسول اللہ کا نام ہے، اگر وہ بے مزہ ہوتے تو ان چیزوں میں کیسے مزہ پیدا کرتے۔ اگر اللہ تعالیٰ بے مزہ ہوتے تو کباب اور مرغی میں لذت اور مٹھائی اور گنے