مقصد حیات |
ہم نوٹ : |
|
یعنی توبہ کرتے ہی اس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ مٹادیتے ہیں اور وہاں وہ نیکیاں لکھ دیتے ہیں جو وہ آیندہ کرنے والا ہے، کیا یہ اللہ تعالیٰ کا کرم نہیں ہے۔ دوسری تفسیر اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ ملکۂ تقاضائے معصیت کو ملکۂ تقاضائے حسنات سے تبدیل فرمادیتے ہیں۔یعنی جو ہر وقت گناہوں کے لیے پاگل رہتا تھا، ہر وقت فلمی گانے، وی سی آر، سینما ہر وقت ٹیڈیوں کے ساتھ اسٹیڈی کرکے نفس کو ریڈی رکھتا تھا اب توبہ کرکے سب گناہوں کو چھوڑ دیا،اب وہ اللہ والوں کے پاس جاتا ہے، نیک اعمال کرتا ہے، اللہ کی رحمت اس کے تقاضائے معصیت کی شدت کو تقاضائے حسنات کی شدت سے تبدیل کردیتی ہے لیکن ایک شرط ہے کہ چھپ چھپ کر وہ معصیت کی عادت کو زندہ نہ رکھے۔ جیسے کوئی بھنگی پاڑہ میں رہتا تھا اور روزانہ گو کے کنستر سونگھا کرتا تھا، اس کے بعد اس نے توبہ کرلی اور عطر کی دکان میں نوکری کرلی اور اس نے عطر والے سے کہا کہ صاحب ہم کو کوئی ایسا عطر دے دیجیے کہ پھر ہم پاخانہ نہ سونگھیں اور بھنگی پاڑہ سے ہم کو مناسبت نہ رہے۔ اس نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے عود کا عطر لو، دس ہزار روپے کا تولہ ملتا ہے، عرب کے شہزادے لگاتے ہیں، تم روزانہ مفت میں لگالیا کرو کہ ہمارے ملازم ہو لہٰذا وہ ٹھیک ہوگیا، اب بدبودار چیز سونگھنے سے اس کو متلی آنے لگی کیوں کہ اس نے بھنگی پاڑہ جانا بالکل چھوڑ دیا تو سال چھ مہینے میں اس کی ناک کا مزاج جو فاسد تھا وہ مزاج سالم سے تبدیل ہوگیا۔ وہ کہتا ہے کہ بدبو کے تصور سے میں اب بھنگی پاڑہ نہیں جاسکتا۔ گو کا کنستر دیکھنے ہی سے قے ہوجائے گی اور اس کے ایک ساتھی نے بھی بھنگی پاڑہ سے توبہ کی تھی لیکن وہ چور قسم کا تھا، کبھی ہفتہ میں مہینہ میں چھپ کر بھنگی پاڑہ جاکر گو کا کنستر سونگھ آتا تھا اور اپنے مربّی کو بتاتا بھی نہیں تھا کہ ایسا نہ ہو کہ پھر جانے ہی نہ دے۔ اب بتائیے کہ کیا اس کو صحت ہوگی اورکیا اس کو بدبو سے نفرت ہوگی؟ کیوں کہ یہ ظالم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہا تھا۔ مولانا رومی اس کو بڑے درد سے فرماتے ہیں اور میں بھی درد سے کہتا ہوں اپنے دوستوں سے ؎