مقصد حیات |
ہم نوٹ : |
|
دست ما چو پائے مارا می خورد جب میرا ہی ہاتھ میرے پیر کو کاٹ رہا ہے۔ بے امان تو کسے جان کے برد تو اے خدا! تیری سلامتی و امن کے بغیر ہم اپنی جان کو کیسے بچاسکتے ہیں۔ دوستو! ہم اپنی جان پر رحم کریں ورنہ ساری زندگی کش مکش اور عذاب میں رہے گی۔ دنیا کا بھی عذاب ہوگا اور جب موت آئے گی تو قبر میں جب عذاب ہوگا تب پتہ چل جائے گا۔ اس لیے میں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت کی ہے وہ چھپ چھپ کر غلط ماحول میں جانے کی حرام حرکت سے، گناہوں کے ارتکاب سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا انتظار نہ کریں۔ جو گناہوں سے سچی توبہ کرے گا پھر اس کے تقاضائے معصیت کو اللہ تعالیٰ نیکیوں کے تقاضے سے بدل دیں گے، کچھ دن کا معاملہ ہے۔ سال دو سال ایسا گزارلو کہ بالکل گناہ نہ کرو، پھر ان شاء اللہ تعالیٰ گناہوں کو دل ہی نہیں چاہے گا، دل ہی بدل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اللہ والا بنادیں۔ مال و متاع کے مقصدِ حیات نہ ہونے کی ایک عجیب دلیل پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی تھی اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر ہم اہل تقویٰ کی صحبت میں رہیں تو مقصدِ حیات کو پالیں گے۔ مقصدِ حیات کیا ہے؟ جب ہم کفن لپیٹ کر جائیں گے تو کیوں کہ ہم اپنے زیورات، بیوی بچے، قالین، موبائل، ٹیلیفون، وائرلیس اور کرنسی کسی قسم کی کوئی چیز نہ لے جاسکیں گے، یہی دلیل ہے کہ یہ ہمارا مقصدِ حیات نہیں ہے۔ بتائیے! یہ دلیل ہے یا نہیں؟ ورنہ جب سے آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں کیا کسی نے دیکھا کہ کوئی مرنے والا اپنے ساتھ اپنا مکان اور قالین اور ٹیلی فون سب لے جارہا ہو اور فرشتوں سے امداد لے رہا ہو کہ اے فرشتو! دوڑو میں اکیلے اپنا قالین اور اپنا مکان نہیں اُٹھاسکتا، میری مدد کرو اور اس کے بعد آسمان سے فرشتے آگئے ہوں کہ جن کا یہ جنازہ ہے انہوں نے اللہ میاں سے درخواست کی ہے کہ میری کرسیاں اور میرا قالین، میرا ٹیلی فون اور موبائل، میری کاریں اور میرا سازو سامان آخرت میں پہنچ جانا چاہیے، آج تک کیا کوئی مردہ ایسا گیا ہے جو اپنا مکان اور اپنا