مقصد حیات |
ہم نوٹ : |
|
اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ 10؎جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور عمل صالح کرے ہم اس کی بُرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیں گے۔ اس پر ایک علمی اشکال یہ ہے کہ توبہ تو حالتِ ایمان میں قبول ہے، اللہ تعالیٰ نے پہلے اِلَّا مَنۡ تَابَ کیوں فرمایا؟ حضرت حکیم الامت نے تفسیر بیان القرآن میں اس کا جواب دیا کہ یہ آیت مشرکین کے لیے نازل ہوئی ہے یعنی مَنْ تَابَ عَنِ الشِّرْکِ جو شرک سے توبہ کرلے وَاٰمَنَ پھر ایمان قبول ہوگا۔ حالتِ شرک میں جو بت کے سامنے سجدہ کرے، اس کا ایمان کیسے قبول ہوسکتا ہے۔ تفسیر مظہری میں بھی اِلَّامَنْ تَابَ کی تفسیر عَنِ الشِّرْکِ کی یعنی جو شرک سے توبہ کرے اور پھر ایمان بھی لے آئے اور نیک اعمال یعنی ضروری طاعات کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی جگہ نیکیاں عطا فرمائے گا۔ توبہ کرنے سے ہماری بُرائیاں کس طرح نیکیوں سے بدل جائیں گی، اس کی علامہ آلوسی نے تین تفسیر کی ہیں۔ تبدیل سیئات بالحسنات کی پہلی تفسیر تفسیر نمبر ایک کہ جتنی اس نے بُرائیاں کی تھیں ان کو مٹاکر اس کی جگہ اللہ تعالیٰ وہ نیکیاں لکھ دے گا جو وہ مستقبل میں کرنے والا ہے۔ ماضی کے گناہوں کو مٹاکر وہاں مستقبل کی نیکیاں لکھ دے گا اور خالی اس لیے نہیں چھوڑے گا کہ خالی چھوڑنے سے فرشتے طعنہ دیتے کہ کچھ دال میں کالا تھا،یہاں سے کچھ مٹایا گیا ہے کیوں کہ یہاں کچھ لکھا ہوا نہیں ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے غلاموں کی آبرو رکھ لی۔ آہ! اپنے بندوں کی آبرو رکھ لی۔ اللہ تعالیٰ اس کے سوابق المعاصی کو مٹادے گا اور لواحق الحسنات کو وہاں لکھ دے گا یعنی ماضی کے جتنے معاصی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو مٹاکر وہاں اس کی مستقبل کی نیکیاں لکھ دیں گے۔ مثلاً ایک شخص فلم میں گانا گاتا تھا، اب توبہ کرلی، نماز پڑھنے لگا، داڑھی رکھ لی اور حج کرنے گیا تو جتنا اس نے گانا بجانا کیا تھا جو اعمال نامہ میں لکھا ہوا تھا اس کو مٹاکر اس کی جگہ لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لکھا ہوا ہوگا۔ _____________________________________________ 10؎الفرقان:70