مقصد حیات |
ہم نوٹ : |
|
اس وطن میں فرق ہے۔ دنیا کے پردیس کی کمائی اور کرنسی آپ اپنے دنیا کے وطن میں لے جاسکتے ہیں، کراچی کی کرنسی کشمیر لے جاسکتے ہیں لیکن جب اصلی وطن آخرت جانا ہوگا تو ہم ایک سوت کپڑا بھی نہیں لے جاسکتے، سوائے کفن کے کوئی پینٹ شرٹ نہیں لے جاسکتے، سب اُتارلی جائیں گی، گھڑیاں تک اُتارلی جائیں گی، چشمے بھی اُتارلیے جائیں گے، چاہے سنہری کمانی کیوں نہ ہو، ساری کرنسی جیب سے نکال کر، کُرتے پاجامے اُتار کر کفن میں لپیٹ دیا جائے گا کہ جاؤ اپنے وطن۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب دنیا میں آئے تھے تو ننگے آئے تھے، جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو بالکل ننگا آتا ہے، اب جاتے وقت اتنا ہوا کہ کچھ کفن اللہ تعالیٰ نے دے دیا کہ جب تم بچے تھے، پیدا ہوئے تھے، اس وقت تم ننگے بھی اچھے لگتے تھے مگر اب بڈھے ہوکر ننگے جاتے تو اچھا نہ لگتا، لہٰذا عزت کے ساتھ، شرافت کے ساتھ میرے پاس آؤ۔ کفن کو شریعت نے لازم کردیا اور اب تم ہمارے مہمان ہو، ہمارے پاس آرہے ہو لہٰذا اب تمہیں ہم مرسڈیز پر نہیں لادیں گے، بسیں اور کاریں تمہارے لیے عزت کی چیز نہیں ہیں لہٰذا جو سب سے زیادہ اشرف ہے، اشرف المخلوقات ہے تم اس انسان کے کندھوں پر چلو۔ آج کوئی بادشاہ بھی کسی کے کندھوں پر نہیں چل سکتا اور اگر چلے تو لوگ کہیں گے کہ یہ بادشاہ کیا حماقت کررہا ہے۔ اللہ نے اپنے مہمانوں کو یہ عزت دی۔ ایک بزرگ شاعر فرماتے ہیں کہ جب ہم دنیا میں آئے تھے تو کچھ ساتھ نہیں لائے لیکن جب آخرت کو گئے تو کیا ساتھ لے کر گئے۔ اس پر یہ شعر کہتے ہیں ؎آئے تھے کس کام کو کیا کر چلے تہمتیں چند اپنے سر پر دھر چلے واں سے پرچہ بھی نہ لائے ساتھ میں یاں سے سمجھانے کو لے دفتر چلے قیامت کے دن اعضاگواہی دیں گے ہم اپنے دفتر کو دیکھیں کہ کیا کیا؟ کیا ہوا ہے اپنی خلوتوں میں، تنہائیوں میں جو کام کیے ہیں جس دن قیامت آئے گی تو یہ ہاتھ بولے گا ؎