Deobandi Books

مقصد حیات

ہم نوٹ :

24 - 34
بِالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِقیامت کے دن ایک آدمی لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے فرشتو! اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کرو۔ اِعْرِضُوْا عَلَیْہِ صِغَارَ ذُنُوْبِہٖ اس کے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے وَیُنْحٰی عَنْہُ کِبَارُہَا اور اس کے بڑے بڑے گناہ چھپادیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تم نے یہ گناہ کیے تھے؟ وہ کہے گا کہ ہاں اللہ تعالیٰ! اور دل میں ڈرے گا کہ اب تو بس جہنم میں گئے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائیں گے کہ اس کے ہر صغیرہ گناہ کی جگہ پر حسنہ اور نیکی لکھ دو اور یہ وہ نیکی نہیں ہوگی جو اس نے کی ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے عطا فرمادیں گے کہ یہاں نیکی لکھ دو، اور ایک دوسری روایت میں ہے لَیَأْتِیَنَّ نَاسٌ یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ بہت سے لوگوں کے ساتھ کرم کا یہ معاملہ ہوگا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں فرمایا کہ یُسَمّٰی ہٰذَا(التَّبْدِیْلُ) کَرَمُ الْعَفْوِاس کا نام عفو کریمانہ ہے13؎  کہ اللہ تعالیٰ معافی بھی دے رہے ہیں اور گناہ کی جگہ نیکیاں بھی دے رہے ہیں، کیسا کریم مالک ہے۔ اس کرم کو دیکھ کر وہ کہے گا کہ اللہ میاں! ابھی تو میرے اور بھی گناہ ہیں،اِنَّ لِیْ ذُنُوْ بًا لَمْ اَرَہَا ہُنَا میں اپنے بڑے بڑے گناہوں کو تو یہاں دیکھ ہی نہیں رہا ہوں۔ ذرا ڈھٹائی تو دیکھیے کہ جب چھوٹے چھوٹے گناہوں پر نیکیاں ملنے لگیں اور انعامات ملنے لگے تو یہ ظالم اپنے بڑے بڑے گناہوں کو                     اللہ میاں کے سامنے پیش کررہا ہے۔ اِنَّ لِیْ ذُنُوْ بًا لَمْ اَرَہَا ہُنَا کہ اللہ میاں میرے تو اور بھی بڑے بڑے گناہ تھے، میں ان کو کیوں نہیں دیکھ رہا ہوں؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس مقام کو بیان فرمایا تو آپ ہنس پڑے،حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہو  گئیں14؎ کہ بندوں کا یہ حال ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے تو اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ہنس پڑیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔آہ!اللہ تعالیٰ کے کرم بے پایاں کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے۔
مقصدِ حیات عبادت ہے
جو دو آیات میں نے تلاوت کیں ان سے معلوم ہوا کہ ہماری زندگی کا مقصد حصولِ تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی ولایت اور دوستی ہے۔ اگر ہماری کرنسی، ہماری قالینیں، ہمارے گھر، ہمارے بال بچے، ہمارے کاروبار، ہمارے پیسے سب موت کے وقت چھن جائیں گے اور کفن
_____________________________________________
13؎  روح المعانی:50/19،الفرقان(70)،داراحیاءالتراث، بیروت
14؎  الجواب الکافی لابن القیم الجوزی
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 آغاز سخن 6 1
3 مسافرانِ دنیا کی تین اقسام 8 1
4 دنیا کا سامانِ سفر آخرت کے لیے کارآمد نہیں 8 1
5 شَکُوْرْ کی تعریف 9 1
6 حفاظتِ نظر کا پہلا انعام بے چینی سے حفاظت 9 1
7 حفاظتِ نظر کا دوسرا انعام ایمان کی حلاوت 10 1
8 حفاظتِ نظر کا تیسرا انعام حسن خاتمہ کی بشارت 11 1
9 ولی اللہ بننے کے لیے دو کام 12 1
10 استحضارِ عظمتِ الٰہیہ کے آثار 13 1
11 حفاظتِ نظر پر حسن خاتمہ کے انعامِ عظیم کا سبب 13 1
12 کہاں جاؤگے اپنی تاریخ لے کر 14 1
13 حُسن فانی سے دل لگانا حماقت ہے 14 1
14 شَکُوْرْکی تشریح پر ایک حکایت 15 1
15 دنیا کا مال و متاع مقصدِ حیات نہیں 16 1
16 قیامت کے دن اعضاگواہی دیں گے 17 1
17 اللہ تعالیٰ کس طرح بُرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیتے ہیں 18 1
18 تبدیل سیئات بالحسنات کی پہلی تفسیر 19 1
19 دوسری تفسیر 20 1
20 مال و متاع کے مقصدِ حیات نہ ہونے کی ایک عجیب دلیل 21 1
21 عبادت کے مقصدِ حیات ہونے پر دو دلائل 22 1
22 غیراللہ سے دل لگانے کا خوف ناک انجام 22 1
23 تبدیل سیئات بالحسنات کی تیسری تفسیر 23 1
24 مقصدِ حیات عبادت ہے 24 1
25 متقی اور ولی اللہ بننے کے دو نسخے 25 1
26 ولی اللہ بننے کا پہلا نسخہ صحبتِ اہل اللہ ہے 26 1
27 اللہ کا نام تمام لذاتِ کائنات کا کیپسول ہے 27 1
28 شیطان دھوکہ باز تاجر ہے 28 1
29 ولی اللہ بننے کا دوسرا نسخہ 29 1
30 مقصدِحیات 7 1
Flag Counter