مقصد حیات |
ہم نوٹ : |
|
بِالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قیامت کے دن ایک آدمی لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے فرشتو! اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کرو۔ اِعْرِضُوْا عَلَیْہِ صِغَارَ ذُنُوْبِہٖ اس کے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے وَیُنْحٰی عَنْہُ کِبَارُہَا اور اس کے بڑے بڑے گناہ چھپادیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تم نے یہ گناہ کیے تھے؟ وہ کہے گا کہ ہاں اللہ تعالیٰ! اور دل میں ڈرے گا کہ اب تو بس جہنم میں گئے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائیں گے کہ اس کے ہر صغیرہ گناہ کی جگہ پر حسنہ اور نیکی لکھ دو اور یہ وہ نیکی نہیں ہوگی جو اس نے کی ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے عطا فرمادیں گے کہ یہاں نیکی لکھ دو، اور ایک دوسری روایت میں ہے لَیَأْتِیَنَّ نَاسٌ یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ بہت سے لوگوں کے ساتھ کرم کا یہ معاملہ ہوگا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں فرمایا کہ یُسَمّٰی ہٰذَا(التَّبْدِیْلُ) کَرَمُ الْعَفْوِ اس کا نام عفو کریمانہ ہے13؎ کہ اللہ تعالیٰ معافی بھی دے رہے ہیں اور گناہ کی جگہ نیکیاں بھی دے رہے ہیں، کیسا کریم مالک ہے۔ اس کرم کو دیکھ کر وہ کہے گا کہ اللہ میاں! ابھی تو میرے اور بھی گناہ ہیں، اِنَّ لِیْ ذُنُوْ بًا لَمْ اَرَہَا ہُنَا میں اپنے بڑے بڑے گناہوں کو تو یہاں دیکھ ہی نہیں رہا ہوں۔ ذرا ڈھٹائی تو دیکھیے کہ جب چھوٹے چھوٹے گناہوں پر نیکیاں ملنے لگیں اور انعامات ملنے لگے تو یہ ظالم اپنے بڑے بڑے گناہوں کو اللہ میاں کے سامنے پیش کررہا ہے۔ اِنَّ لِیْ ذُنُوْ بًا لَمْ اَرَہَا ہُنَا کہ اللہ میاں میرے تو اور بھی بڑے بڑے گناہ تھے، میں ان کو کیوں نہیں دیکھ رہا ہوں؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس مقام کو بیان فرمایا تو آپ ہنس پڑے، حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں14؎ کہ بندوں کا یہ حال ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے تو اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ہنس پڑیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔آہ!اللہ تعالیٰ کے کرم بے پایاں کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے۔ مقصدِ حیات عبادت ہے جو دو آیات میں نے تلاوت کیں ان سے معلوم ہوا کہ ہماری زندگی کا مقصد حصولِ تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی ولایت اور دوستی ہے۔ اگر ہماری کرنسی، ہماری قالینیں، ہمارے گھر، ہمارے بال بچے، ہمارے کاروبار، ہمارے پیسے سب موت کے وقت چھن جائیں گے اور کفن _____________________________________________ 13؎روح المعانی:50/19،الفرقان(70)،داراحیاءالتراث، بیروت 14؎الجواب الکافی لابن القیم الجوزی