دنیا میں کوئی پاگل نہیں ہے۔ گناہ کا ماضی، حال اور مستقبل سب بے چین ہے۔ جو لوگ گناہ کے عادی ہیں، جس وقت گناہ کرتے ہیں اُس وقت بھی اُن کا دل دھڑکتا رہتا ہے، پریشان رہتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ رہا ہو، اور اُن کا ماضی جب اسکیم بناتا ہے اُس وقت بھی سرگرم رہتا ہے، کوئی اُس وقت پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھ لے،اور اُن کا مستقبل بھی بدحواس رہتا ہے کہ کہیں کوئی بدنامی نہ ہوجائے، کوئی انتقام لینے نہ آجائے۔ تو انسان کے تین زمانے ہیں: ماضی، حال اور مستقبل، گناہ سے تینوں زمانے تباہ ہوجاتے ہیں،گویا ذرا سی دیر کے مزے کے لیے اللہ کے غضب و قہر خرید کر زندگی برباد کرتا ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ گناہ سے پیٹ نہیں بھرتا۔ نمکین پانی سے پیاس نہیں بجھتی، نمکین پانی جتنا پیتا ہے اتنی ہی پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ گناہ کرنے سے گناہ کے تقاضے اور بڑھتے چلے جاتے ہیں، ایک گناہ کے بعد دوسرے گناہ کو دل چاہے گا، نتیجہ کیا نکلے گا کہ گناہ چھوڑنا مشکل ہوجائے گا، آخر اسی گناہ کی حالت میں موت آجائے گی، اس وقت کیا حال ہوگا؟ دنیا بھی گئی اور قبر میں بھی پٹائی شروع ہوگئی، اس لیے دنیا میں اگر جنت چاہتے ہو، اگر دنیا ہی میں عیش چاہتے ہو تو اللہ کو راضی کرلو۔ میں پوچھتا ہوں کہ گناہ سے نفس کیا چاہتا ہے؟ عیش ہی تو چاہتا ہے نا! تو میں کہتا ہوں کہ عیش اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُن کے نام میں ہے۔
انسان کا سب سے بڑا دُشمن
دُشمن کیا عیش دے سکتا ہے؟ نفس تو دُشمن ہے، اللہ اُس کے شر سے بچائے ۔وہ جن چیزوں میں عیش دکھاتا ہے اُن میں عیش ہو ہی نہیں سکتا۔ نفس شیطان سے بڑا دُشمن ہے، کیوں کہ شیطان سے پہلے کوئی شیطان تھا؟ ہم لوگ تو کہہ دیتے ہیں کہ صاحب شیطان نے بہکادیا، لیکن شیطان کو کس نے بہکایا؟ اسی نفس نے۔ شیطان سے پہلے کوئی شیطان نہیں تھا، اس کا نام تو عزازیل تھا، فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا، لیکن اس کے نفس میں بڑائی آگئی، اس کو نفس نے بہکایا کہ تو آدم علیہ السلام سے افضل ہے، نفس کی وجہ سے شیطان برباد ہوا، تو معلوم ہوا کہ نفس شیطان سے بھی بڑا دُشمن ہے، اس لیے ہر وقت خدا سے پناہ مانگو۔ اَللّٰہُمَّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ اے اللہ! مجھے نیک باتوں کا الہام کرتے رہیے۔ وَاَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ11؎ اور اس نفس کے شر
_____________________________________________
11؎ جامع الترمذی:186/2،باب ماجاء فی جامع الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ایج ایم سعید