صحبتِ اہل اللہ کی ضرورت کی دلیل
قرآنِ پاک کی آیت وَاصْبِرْ نَفْسَکَ، اور اپنے نفس پر تکلیف برداشت کیجیے‘‘ کی تفسیر فرماتے ہوئے میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اگر صحبت ضروری نہ ہوتی تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جاتا کہ خلوتوں میں اپنی آہ و زاریوں سے صحابہ کو اللہ تک پہنچادیجیے، مگر آیت نازل ہوئی وَاصْبِرْ نَفْسَکَ اے ہمارے محبوب! اپنے نفس پر تکلیف برداشت کیجیے، گھر سے بے گھر ہوجائیے، گھر کا آرام چھوڑ کر صحابہ میں بیٹھ جائیے۔ صبر کیجیے، تکلیف اُٹھائیے، ہم آپ کو غیروں میں بیٹھنے کا حکم نہیں دے رہے ہیں۔
وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمْ
اپنے عاشقوں میں بیٹھنے کے لیے کہہ رہے ہیں جو ہماری یاد میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ بھی میرے عاشق، صحابہ بھی میرے عاشق، عاشق کو عاشقوں کی تربیت کے لیے بھیج رہا ہوں۔
میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحبت اتنی ضروری چیز ہے کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانِ پاک کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپ صبر کیجیے، اپنے نفس پر تکلیف اُٹھائیے۔ بے شک آپ کو خلوت میں میرے نام میں مزہ آرہا ہے، لیکن اگر آپ خلوت میں رہیں گے تو صحابہ کیسے آپ کی ذات سے فیض یاب ہوں گے؟ لہٰذا آپ ان کے پاس تشریف لے جائیے، گھر سے بے گھر ہوجائیے اور مسجدِ نبوی میں جو صحابہ ہمیں یاد کررہے ہیں ان کے پاس جاکر بیٹھ جائیے اور نسبت مع اللہ علیٰ منہاجِ النّبوۃ جو ہم نے آپ کو عطا کی ہے،اس اعلیٰ ترین درجہ کی نسبت مع اللہ کے فیضانِ نبوت سے صحابہ کو صاحبِ نسبت بنائیے،کیوں کہ ان ہی سے آگے اسلام پھیلانا ہے۔
تو میرے شیخ فرماتے تھے کہ اگر صحبت ضروری نہ ہوتی تو کیا اللہ اپنے پیارے نبی کو اپنے نفس پر مشقت برداشت کراتا، صبر کراتا؟ کیا صبر کرنے میں آرام ملتا ہے؟ صبر کرنے میں تو تکلیف ہوتی ہے، مگر اس عنوان سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کو شیریں کردیا کہ ہم آپ کو غیروں میں نہیں بھیج رہے ہیں، بلکہ اپنے عاشقوں میں بھیج کر ہم آپ کے صبر کو لذیذ کررہے ہیں؎