والی دونوں پر لعنت برستی ہے۔ ناظر بھی ملعون ہورہا ہے اور منظور بھی ملعون ہورہا ہے، دونوں طرف لعنت برس رہی ہے۔
گناہوں سے دل بہلانا حماقت ہے
اب کوئی کہے کہ صاحب! پھر دل کاہے سے بہلائیں؟ پھر دنیا میں کیا ہے؟ فیچر دیکھنا آپ منع کررہے ہیں، وی سی آر سے آپ منع کررہے ہیں، ریڈیو کے گانے سے آپ منع کررہے ہیں تو ہم کہاں جائیں؟ کیا بس مسجد میں بیٹھے رہیں؟ مسجد میں کوئی نظر نہیں آتا، کس کو دیکھیں، اللہ میاں کا نام لیتے ہیں تو وہ بھی نظر نہیں آتا،تو ہماری زندگی رنگین اور مزیدار کس طرح ہوگی؟ کیسے دن کٹیں گے؟ مطلب یہ ہوا کہ گناہوں میں دن اچھے کٹ رہے ہیں۔ اللہ سے، اپنے پیدا کرنے والے مالک سے رشتہ کاٹ کر دن کاٹتے ہوئے شرم نہیں آتی، ایسی بات کرتے ہو؟ دنیا میں ذرا سا کوئی احسان کردیتا ہے تو کہتے ہو کہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے شرم آتی ہے، لیکن جس کی زمین پر رہتے ہو، جس پر چل رہے ہو، یہ زمین تمہارے باپ نے پیدا کی ہے؟یہ سورج تمہارے دادا نے پیدا کیا ہے؟ جس کی روشنی سے فائدہ اُٹھارہے ہو۔یہ آنکھیں جن کو تم غلط استعمال کرتے ہو یا کرنا چاہتے ہو، ان آنکھوں کو تم کہاں سے لائے ہو، کیا یہ تمہاری جاگیر تھیں؟ یہ تمہارے ماں باپ نے نہیں بنائیں، خدا نے بنائی ہیں۔ عقل کے ناخن لو، ہوش میں آجاؤ، پاگل مت بنو۔ انسان کوا للہ نے عقل دی ہے۔ گناہوں میں چین نہیں ہے۔ جن شکلوں سے تم چین حاصل کرنا چاہتے ہو جب وہ شکلیں بگڑجائیں گی، پھر کہاں جاؤگے چین حاصل کرنے؟؎
تم نے دیکھیں بگڑتی بہت صورتیں
ان کی صورت بھی اِک دن بگڑ جائے گی
یہ میرا ہی شعر ہے، اور میرا ایک قطعہ ہے؎
حسینوں کا جغرافیہ میرؔ بدلا
کہاں جاؤ گے اپنی تاریخ لے کر
یہ عالَم نہ ہوگا تو پھر کیا کروگے
زحل مشتری اور مریخ لے کر