ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص بدنظری کرکے آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
مَابَالُ اَقْوَامٍ یَّتَرَ شَّحُ مِنْ اَعْیُنِہِمُ الزِّنٰی3؎
کیا حال ہے ایسی قوم کا جن کی آنکھوں سے زنا ٹپکتا ہے۔
اللہ والوں کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کے جلوے جھلکتے نظر آتے ہیں اور غیراللہ کے عاشقوں سے مردہ لاشوں کی بدبو آتی ہے۔
مرید کے دل میں شیخ کی عظمت کی مثال
علی گڑھ میں میرس(Marris) روڈ نوابوں کی کوٹھیوں سے بھری ہوئی تھی۔ بڑے بڑے نواب وہاں رہتے تھے۔ آج سے تقریباً چالیس برس پہلے میں نے کچھ اشعار کہے تھے۔ میں نے ان اشعار میں اپنے شیخ کی جوتیوں کے صدقے نوابوں کو مخاطب کیا تھا۔ اُس وقت میں ایک مسکین طالب علم کی حیثیت سے اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نواب چھتاری کے یہاں گیا تھا، لیکن شیخ کی برکت سے نوابوں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ اگر مرید نے اپنے شیخ سے اللہ کو حاصل نہ کیا، سموسے پاپڑ کھاتا رہا اور دنیا کی تفریح کرتا رہا تو اللہ سے محروم رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی، میں نے کبھی نوابوں اور مال داروں کی خوشامد نہیں کی، لیکن آج کل مریدوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی رئیس آدمی پیر کے پاس آجاتا ہے تو مرید اپنے پیر کو دیکھتا بھی نہیں۔ اگر مدرسہ والا ہے تو رئیس کے پیچھے پیچھے مدرسہ کی رسیدیں لے کر دوڑتا ہے اور اپنا مدرسہ دکھانے کی کوششیں کرتا ہے۔ خوب غور سے سن لو! مخلوق سے لپٹنے سے کام نہیں بنے گا، اللہ کے آگے رونے سے کام بنے گا۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ میں نے اپنے اشعار میں شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ کی غلامی کے صدقے نوابوں کو خطاب کیا؎
بہت خوشنما ہیں یہ بنگلے تمہارے
یہ گملوں کے جھرمٹ یہ رنگیں نظارے
_____________________________________________
3؎ التفسیر القرطبی :44/10، الحجر(75)،مطبوعۃ ایران،ذکرہ بلفظ یدخل احدکم علیّ وفی عینیہ أثر الزنا