ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
کی بھی ایسی حالت تھی کہ اُنہیں جیسے کہتے ہیں نا کہ کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ،کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا ایسے حواس معطل ہوئے تو اَبو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صَدَقَ عُثْمَانُ یہ سچ کہہ رہے ہیں ٹھیک کہہ رہے ہیں اَور قَدْ شَغَلَکَ عَنْ ذَالِکَ اَمْر معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام میں تمہارا ذہن تھا لگا ہوا اُس میں مشغول تھے ذہن اُس میں مصروف تھا فَقُلْتُ اَجَلْ میں نے کہا بالکل ٹھیک یہی بات تھی، پوچھا اُنہوں نے مَا ہُوَ کیا چیز ہے ایسی ؟ میں نے کہا کہ تَوَفَّی اللّٰہُ تَعَالٰی نَبِیَّہُ ۖ قَبْلَ اَنْ نَسْاَلَہُ عَنْ نَّجَاةِ ھٰذَا الْاَمْرِ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ۖ کو اَپنے پاس بلا لیا اَور ہم یہ پوچھ نہیں سکے کہ اِس معاملہ میں نجات کیسے حاصل ہوگی ؟ یہ ایک جملہ ہے۔ نجات کا مدار کیا ہے ؟ اِس کا جواب اَبو بکر رضی اللہ عنہ نے دیا قَالَ اَبُوْبَکْرٍ قَدْ سَأَلْتُہ عَنْ ذَالِکَ جو بات تمہارے ذہن میں ہے کہ ہم یہ نہیں پوچھ سکے وہ میں نے پوچھی ہے میں نے پوچھ لی تھی وہ بات فَقُمْتُ اِلَیْہِ کہتے ہیں میں کھڑا ہو گیا جذبے میں جوش میں اَور میں نے کہا بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ اَنْتَ اَحَقُّ بِہَا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اَور آپ واقعی اِس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ پوچھ لیں کہ مدار ِ نجات کیا ہے ؟ ایک اِنسان جو پیدا ہوا ہے اُس کا مدارِ نجات کیا ہوتا ہے ؟ تو اَبوبکر رضی اللہعنہ نے فرمایا کہ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا نَجَاةُ ھٰذَا الْاَمْرِ اِس معاملہ کی نجات کیسے ہوگی یعنی یہ جو کچھ پیش آرہا ہے جب سے آئے ہیں اَور جب جائیں گے ،اِس سب معاملہ میں نجات کی سبیل کیا ہوگی قیامت کے دِن خدا کے سامنے عِنْدَ اللّٰہِ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا مَنْ قَبِلَ مِنِّی الْکَلِمَةَ الَّتِیْ عَرَضْتُ عَلٰی عَمِّیْ فَرَدَّھَا جو آدمی میرا وہ کلمہ جو میں نے اَپنے چچا اَبو طالب کے سامنے پیش کیا میں نے کہا کہ میرے کان میں آہستہ سے آپ کلمہ کہہ لیں اُحَاجُّ لَکَ بِھَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ قیامت کے دِن میں اللہ کے یہاں اِس کی وجہ سے آپ کی نجات کے لیے حجت کرلوں گا لیکن اُنہوں نے رَد کردیا جو یہ کلمہ قبول کر لے تو یہ نجات ہے اُس کے لیے فَھِیَ لَہ نَجَاة ۔ ١ ١ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٤١