ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
پیدا ہوتا لہٰذا وہاں بِلاکراہت جائز ہوگا۔ دُوسری قوموں کے نئے نئے فیشن اِختیار کرنا : بعض عورتوں نے سایہ (ساڑھی) پہننا شروع کیا ہے اَور وہ میم صاحب بننا چاہتی ہیں۔ ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں، کان ننگے اُن میں بالیں تک نہیں جو طرز میموں کا ہے وہ اِختیار کیا ہے، عورتوں میں یہ نیا فیشن ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اِس سے قطع نظر کہ تشبہ (یعنی لباس میں بھی دُوسری قوموں کی مشابہت اِختیار کرنا) ناجائز ہے۔ اَخلاق پر بھی تو اِس کا بہت اَثر پڑتا ہے وہ یہ کہ اِس سے تکبر پیدا ہوتا ہے تو جو (لباس) تکبر کا سبب ہوگا وہ بھی ناجائز ہوا۔ (ایسا لباس پہننے والے) اپنے آپ کو بڑا اَور دُوسروں کو ذلیل سمجھتے ہیں۔ اَور میں یہ نہیں کہتا کہ غیر قوم کی ہر چیز ناجائز ہے بلکہ وہ ناجائز ہے جس کو دُوسری قوم کے ساتھ خصوصیت ہے اَور جس چیز کو دُوسری قوم کے ساتھ خصوصیت نہیں وہ جائز ہے جیسے کرسی وغیرہ میں کوئی اِمتیازی شکل باقی نہیں رہی اَور وہ کسی خاص قوم کی وضع نہیں سمجھی جاتی اِس لیے جائز ہے اَور سایہ (ساڑھی) وغیرہ میں اِمتیازی شکل باقی ہے اِس لیے ناجائز ہے۔ اَور اِمتیازی شکل باقی رہنے یا نہ رہنے کی علامت یہ ہے کہ اگر اُس کو دیکھ کر طبیعت کھٹک جائے کہ یہ تو فلاں قوم کا طرز (لباس) ہے تو تشبہ ہے ورنہ تشبہ نہیں چنانچہ سایہ (ساڑھی) وغیرہ دیکھ کر فورًا دیکھنے والے کا ذہن منتقل ہوتا ہے کہ یہ تو میموں کا طرز ہے اَور کرسی میں ایسا نہیں ہے۔ اِسی پر اَور چیزوں کو قیاس کرلو (اَلبتہ اگر رواج ہوجانے کی وجہ سے طبیعت میں یہ کھٹک باقی نہ رہے کہ یہ تو دُوسری قوم کا لباس ہے تو تشبہ ختم ہوجائے گا اَور تشبہ کی وجہ سے ممانعت بھی باقی نہ رہے گی۔ (التبلیغ احکام المال ج ١٥ ص١٣٠)