ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
تشبہ یعنی دُسری قوموں کے طور طریق اِختیار کرنے کے شرعی اَحکام : تشبہ بالکفار، اِعتقادات و عبادات میں کفر ہے اَور مذہبی رسومات میں حرام ہے جیسا کہ نصاریٰ کی طرح سینہ پر صلیب لٹکانا اَور ہندئوں کی طرح زنار (دھاگا سا) باندھنا ،سر پر چوٹی رکھنا یا جے پکارنا ایسا تشبہ بِلاشبہ حرام ہے۔ ٭ معاشرت اَور عبادات اَور قومی شعار میں تشبہ مکروہِ تحریمی ہے مثلاً کسی قوم کا وہ مخصوص لباس اِستعمال کرنا جو خاص اُن ہی کی طرف منسوب ہو اَور اُس کا استعمال کرنے والا اُسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے جیسے ہندوانہ دھوتی یہ سب ناجائز اَور ممنوع ہے۔ اِسی طرح کافروں کی زبان اَور اُن کا لب و لہجہ اَور طرزِ کلام کو اِس لیے اِختیار کرنا کہ ہم بھی اَنگریزوں کے مشابہ بن جائیں تو بلاشبہ یہ ممنوع ہوگا۔ ٭ اَور جو چیزیں دُوسری قوموں کی نہ قومی وضع ہیں نہ مذہبی وضع ہیں گو اُن کی اِیجاد کی ہوئی ہوں اَور تمام ضرورت کی چیزیں ہیں جیسے دیا سلائی یا گھڑی یا نئے ہتھیار یا نئی ورزشیں جن کا بدل ہماری قوم میں نہ ہو اُس کا برتنا جائز ہے جیسے بندوق، ہوائی جہاز وغیرہ، یہ دَرحقیقت تشبہ نہیں مگر شرط یہ ہے کہ اِس کے استعمال کرنے سے نیت و اِرادہ کافروں کی مشابہت کا نہ ہو مگر اُن جائز چیزوں کی تفصیل اپنی عقل سے نہ کریں بلکہ علماء سے پوچھ لیں۔ (حیات المسلمین ) ٭ اَورمسلمانوں میں جو فاسق یا بدعتی ہیں اُن کی وضع اِختیار کرنا بھی گناہ ہے۔ (اَنفاسِ عیسیٰ ) تشبہ ختم ہوجانے کی پہچان : اِس کا معیار یہ ہے کہ جن چیزوں کے دیکھنے سے عام لوگوں کے ذہن میں یہ معلوم ہوتا ہوکہ یہ بات کفار کی ہے اَور کفار کی خصوصیت کی طرف ذہن ہوجاتا ہو تو تشبہ ہوگا وَرنہ نہیں۔ (بس تشبہ کے ختم ہوجانے کی) پہچان یہ ہے کہ اِن چیزوں کے دیکھنے سے عام لوگوں کے ذہن میں یہ کھٹک نہ ہوکہ یہ وضع تو فلانے لوگوں کی ہے۔ جب تک یہ خصوصیت باقی ہے اُس وقت تک منع کیا جائے گا جیسے ہمارے