ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
دُوسری جو طاقت تھی عیسائیوں کی کبھی ایسے ہوا ہے کہ کسی حد تک کسی میدان میں غالب آگئی ہو ورنہ نہیں غالب آسکی۔ اِسی طرح اَچانک کوئی طاقت (وقتی طور پر)اُبھری ہو اَور وہ چھا گئی ہو بہت نقصان پہنچا دیا ہو اَیسے بھی ہوا ہے جیسے ہلاکو، چنگیز یہ چلے ہیں اَور بڑا نقصان پہنچا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ مسلمان ہونے شروع ہوگئے اَوروہ اِسلام کا جز بن گئے اللہ تعالیٰ نے اُن کے دِلوں میں اِسلام ڈال دیا مسلمان ہوتے چلے گئے سب۔ تو جو فکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تھی اُس کا جواب تو اَبوبکر رضی اللہ عنہ نے دیا لیکن دُوسری حدیث جو اَور آگے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی ہے وہ اِس کتاب میں موجود ہے وہ اِس گفتگو کا حصہ نہیں ہے لیکن اِس کتاب میں ایسے اَندازسے دی ہے کہ وہ اَبو بکر رضی اللہ عنہ کی اِس بات کی ایک طرح سے تشریح بھی ہوجاتی ہے کہ یہ کلمہ نجات ِ آخرت کے لیے توکافی ہے ہی ہے لیکن دُنیاوی بلندی کے لیے بھی یہ کافی ہے۔ اِسلام کی راہ میں حکمران رُکاوٹ ہیں : ہاں اَگر مسلمان عمل چھوڑ دیں اَور پھر یہ کہیں کہ ہماری مدد نہیں ہو رہی تو یہ تو بات ایسے ہی ہے آپ سمجھ لیں خود دیکھ لیں اَپنا حال دیکھ لیں کہ چالیس سال ہو گئے ہیں پاکستان بنے ہوئے شاید اِکتالیس ہوگئے اَور اِس عرصہ میں سب کچھ ہوا ہے مگر اِسلام نہیں آنے دیا ! کون مانع رہا ہے ؟ حکمران مانع رہے ہیں کسی ایک کا نام نہیں لیا جا سکتا ہے پورا طبقہ اَز اَوّل تاآخر سلسلہ ہے ایسے کہ اِسلام ہی نہ آنے پائے جو سوراخ بھی نظر آتا ہے اِسلام کے آنے کا وہ بھی بند کردیا جاتا ہے۔ ہاں اِسلام کانام لینا اَور بہکانا یہ ضرور رہا ہے تو جو اَنگریز کرتا وہ اُس کے جانشین بن کر اِن لوگوں نے کیا ہے ظلم ،اَگر پھر بنگلہ دیش بن جائے اَور پاکستان ٹوٹ جائے آدھا تو اِس میں قصور اِسلام کا نہیں ہے اِس میں قصور بے عملی کا ہے کہ اِسلام کے اُوپر عمل نہیں کیا۔ تو (مشرقی پاکستان کا)وہ حصہ جہاں کوئی راستہ ہمارا نہیں جاتا ،خشکی کا راستہ آٹھ سو میل دَرمیان میں دُشمن ہندوستان، بحری راستہ لنکا سے جاتا ہے بہت طویل ،ہوائی راستہ وہ بھی اِسی طرح مگر اِس کے باوجود اِسلام کا صرف نام ہی لیا تھا تو وہ ملا رہا مدتوں فقط اِسلام کے نام پر ،اَگر اِسلام سچ مچ آگیا ہوتا تو وہ بھی مِلا ہی رہتا اَور ہو سکتا تھا کہ