ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
دُوسری مثال لیجیے کیا کوئی مرد زَنانہ کپڑے پہننا اپنے لیے تجویز کرسکتا ہے۔ ذرا زَنانہ کپڑے اَور پازیب (چوڑی وغیرہ پہن کر عام جلسہ میں بیٹھ تو جائیں، زنانی وضع (طور طریق) میں سوائے تشبہ کے اَور کیا عیب ہے۔ اَفسوس ایک مسلمان تو دُوسرے مسلمان کی وضع اِختیار نہ کرے کیونکہ اِس میں اگر فرق ہے تو صرف مرد اَور عورت کاہے۔اِسلام تو دونوں کا مشترک ہے اَور مسلمان ہوکر غیر مسلمان (دُوسری قوموں) کی وضع اِختیار کرے ! تعجب ہے ! بعض لوگ کہتے ہیں کہ ضرورت کی وجہ سے (دُوسری قوموں کا لباس) پہنتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اِس کی ضرورت تسلیم بھی کرلی جائے تو کیا ہر وقت ہی ضرورت رہتی ہے ؟ یہ سب حیلے ہیں اِس میں اُس کا اَصلی گر (اَور وجہ) بتلادُوں، بات صرف یہ ہے کہ ایسی قوم کی وضع (اَور فیشن) ہے جو رُعب اَور دبدبہ والی قوم ہے اُس کو محض اِس لیے اختیار کرتے ہیں تاکہ ہمارا بھی رُعب پڑے۔ میں کہتا ہوں کہ کون سا کام اَٹکا ہوا ہے اَصل منشاء محض تکبر ہے۔ بس اپنے کوبڑا بنانے کی کوشش کرتے ہیں اَور یہ بڑا بننا قانونِ اِلٰہی میں بہت بڑا جرم ہے۔ گو تعزیرات ِ ہند (ہندوستانی دفعات) میں نہ ملے گا مگر تعزیراتِ شرع (یعنی شریعت کی دفعات) میں ملے گا۔ حضور ۖ اِرشاد فرماتے ہیں کہ جس کے قلب میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جاسکتا۔ جو جنت کو نہ مانے وہ تو مخاطب ہی نہیں مگر جو جنت کو مانتا ہے وہ سمجھ لے کہ اِس پر کیسی وعید ہے۔ جنت جیسی چیز کا ہاتھ سے جاتے رہنا کیا چھوٹی بات ہے۔ حدیث کے علاوہ قرآن شریف میں ہے اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے اَور شیطان راندۂ ٔدَرگاہ ہوا اُس کا سبب بھی یہی تکبر تھا غرض اپنے آپ کو بڑا سمجھنا یہ جرم ہے اَور فیشن وغیرہ میں جو غلو پیدا ہوگیا ہے اُس کا منشاء تکبر ہے۔ شرعی دلیل : حق تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں :