ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
شہروں میں ایسی آزادی پھیلی ہے کہ بعض شہروں میں عورتیں اَچکن (مردانہ لباس) پہنتی ہیں اَور اِس میں قصور عورتوں کا تو ہے ہی ،کچھ ڈھیلاپن مردوں کا بھی ہے کہ وہ اِن باتوں کو معمولی سمجھ کر عورتوں پر روک ٹوک نہیں کرتے حالانکہ یہ باتیں ہلکی اَور معمولی نہیں، لعنت سے زیادہ اَور کیا سختی ہوگی جب اِن باتوں پر لعنت آتی ہے تو ہلکی کیسی مگر لوگوں کو دین کا اہتمام ہی نہیں۔ سالن میں ذرا نمک تیز ہوجائے تو مرد ایسے خفا ہوجاتے ہیں کہ کھانا نہ کھائیں اَور رَکابی (پلیٹ) بیوی کے منہ پر دے ماریں اَور مارنے پیٹنے کو کھڑے ہوجائیں مگر لعنت کے کام پر ذرا بھی حرکت نہیں ہوتی بلکہ بعض مرد تو ایسے آوارہ مزاج کے ہیں کہ باہر والی (فیشن والی) عورتوں کو دیکھ کر اُن کے دِل میں خود ہی شوق ہوتا ہے کہ اپنی گھر والیوں کو بھی ایسا بنائیں۔ اَفسوس ! کہاں گئی اُن کی غیرت اَور کہاں گئی شرافت، کیا شریف عورتوں کو بازاری بنانا چاہتے ہیں۔ گھر میں رہنے والی عورتیں تو بس ڈھیلی ڈھالی وضع ہی میں اچھی لگتی ہیں ،یہ کیا کہ کسی کسائی پھرتی ہیں، یہ کوئی سپاہی ہیں جو ہر وقت کمر کسی ہوئی ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ میلی کچیلی نہ رہیں کیونکہ صفائی ستھر ائی زینت اِختیار کرنا یہ شوہر کا حق ہے مگر یہ مناسب نہیں کہ آستینیں بھی کسی ہوئی ہیں، پاجامے بھی ایسے ہیں کہ چٹکی لو تو کھال چٹکی میں آجائے، جوتا بھی چڑھا ہوا ہے،یہ کیا لغو حرکتیں ہیں خدا تعالیٰ نے تم کو عورت بنایا ہے تم مرد کیسے بن سکتی ہو۔ (التبلیغ النساء ج ٧ ص١٦٧) دُوسری قوموں کا لباس اَور فیشن اِختیار کرنا عقل و نقل کی روشنی میں : آج کل لوگوں کو اِس مسئلہ میں بھی شبہ ہے کہ دُوسری قوموں کی وضع (فیشن) اِختیار کرنے کے متعلق کہتے ہیں کہ کیا اِس سے اِیمان جاتا رہتا ہے ؟ اِس سے متعلق دو مثالیں عرض کرتا ہوں ،اِس وقت سلاطین (اَور مختلف ممالک) میں جنگ ہو رہی تھی، اگر کوئی شخص جو برطانیہ کی فوج میں ہو وہ جرمنی سپاہی کی وردِی پہن لے اَور منصبی خدمت (اپنی ذمّہ داری) میں کوئی کوتاہی نہ کرے تو کیا اُس کا یہ فعل (حرکت) اَفسران کی ناخوشی کا ذریعہ نہ ہوگا ؟