ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
بچیوں کی شادی کا مسئلہ : کچھ لوگ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ بھائی پہلے ہی بچیاں سیانی گھر بیٹھی ہیں پہلے اِن کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں باقی چیزیں بعد کی ہیں ۔ بچیوں کی شادی سے فراغت کے بعد حج کا پروگرام بنائیں گے جبکہ بچیوں کی اَبھی نہ منگنی ہوئی ہے نہ سامنے کوئی رشتہ ہے اَورکچھ معلوم نہیں کب اِن کی شادی ہوگی یا اَگر منگنی ہو بھی گئی تو بھی نکاح رُخصتی وغیرہ باقی ہے اَور اِس فریضے کو پہلے اَدا کرنا ضروری ہے حالانکہ شرعًا یہ بھی حج کی تاخیر کے لیے عذر نہیں ہے ۔ اِس لیے اِن کے نکاح کے اِنتظار میںحج فرض کو مؤخر کرنا دُرست نہیں،اِن کی حفاظت کا تسلی بخش اِنتظام کرکے حج کے لیے جانا چاہیے۔ بچوں کو کس کے حوالے کریں ؟ بعض لوگ خصوصًا عورتیں یہ بہانہ بناتی ہیں کہ اَبھی بچے چھوٹے ہیں اَورہم نے کبھی بچوں کو اَکیلا نہیں چھوڑا، اِنہیں اَکیلا چھوڑکر کیسے جائیں ؟ یہ بھی محض ایک بہانہ ہے ۔ اِن کو اگر کسی دُوسری جگہ کا سفر پیش آجائے یا کسی مرض کی وجہ سے ہسپتال جانا پڑے تو اُس وقت چھوٹے بچوں کا سب اِنتظام ہو جاتا ہے، جب وہاں اِنتظام ہوسکتا ہے تو حج کے لیے جانے پر بھی اِنتظام ہوسکتاہے ۔اِس لیے بچوں کی حفاظت کا مناسب بندوبست کرکے حج اَدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے(اَلبتہ اَگربچوں کی حفاظت کا مناسب اِنتظام نہ ہو سکے جس کی وجہ سے اُن کے ضائع ہونے کا اَندیشہ ہو اَور ساتھ لے جانابھی مشکل ہوتو پھر اپنے حالات کے مطابق معتبر اہلِ فتویٰ سے رجوع کرنا چاہیے)۔ کاروبار کس کے حوالے کریں ؟ کچھ لوگ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ چونکہ بچے بھی چھوٹے ہیں اَور کاروبار کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے اِس لیے بچے جب بڑے ہو جائیں گے اَورکاروبار سنبھال لیں گے تو پھر حج پر جائیں گے۔ یہ بھی محض نفس کا بہانہ اَورحج کرنے سے جی چراناہے ۔ نہ معلوم کب بچے بڑے ہوں اَورکب وہ کاروبار سنبھالیں اگر بچوں کا پہلے ہی اِنتقال ہو گیا یا بڑے میاں کا وقت پہلے ہی آگیا تو پھر حج کا کیا ہوگا ؟ بہرحال کسی قابلِ اعتماد شخص کو کاروبار سپرد کرکے حج کے لیے جائیں اَوراگر کوئی بھروسہ کا آدمی