ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
(٢)بیت اللہ کی زیارت کے وقت (٣) (٤) صفا و مروہ پر (٥، ٦) عرفات اَور مزدلفہ میں وقوف کے وقت(٧) رمیِ جمار کے وقت۔ '' مذکورہ دونوں حدیثوں سے ثابت ہو رہا ہے کہ نماز میں رفع یدین صرف نماز کے شروع میں تکبیرِ تحریمہ کے وقت کرنا چاہیے اَور کسی جگہ نہیں، اَحناف اَور مالکیہ کا موقف یہی ہے وہ نماز میں فقط تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کو سنت سمجھتے ہیں اَور کسی جگہ نہیں، یہ حضرات اِن دوحدیثوں کے علاوہ اَوربھی بہت سی اَحادیث پیش کرتے ہیں جن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین بس نماز کے شروع میں تکبیر ِ تحریمہ کے وقت کرنا چاہیے اَور کسی جگہ نہیں، رہیں وہ اَحادیث جن میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے اَور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت بھی رفع ِ یدین کا ذکر ہے اِن سب کا جواب اِن حضرات کی طرف سے یہ ہے کہ اِن تمام اَحادیث سے فقط یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ۖ نے اِن مقامات پر رفع ِ یدین کیا تھا ،اِتنی بات تو متفق علیہ ہے ۔ رہا یہ کہ اِن مقامات پر کیا جانے والا رفع ِ یدین باقی بھی رہا یا نہیں ؟ یہ بات مختلف فیہ ہے اَحناف اَور مالکیہ اِس کا اِنکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بعد میں یہ رفع ِ یدین باقی نہیں رہا جس کی دیگر دَلیلوں کے علاوہ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پہلے نماز میں بہت زیادہ رفع ِ یدین ہوتا تھا، تکبیر ِ تحریمہ کے وقت بھی، رکوع میں جاتے اَور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت بھی، سجدہ میں جاتے وقت اَور اُٹھتے وقت بھی، دونوں سجدوں کے درمیان بھی اَور تیسری رکعت کے لیے اُٹھتے وقت بھی اَور ہر اُونچ نیچ میں بھی لیکن رفتہ رفتہ یہ تمام رفع ِ یدین ختم ہوگئے، صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت کیا جانے والا رفع ِیدین باقی رہا۔ لہٰذا اَب وہی رفع ِ یدین کرنا چاہیے باقی سب کو چھوڑ دینا چاہیے یہی وجہ ہے کہ ہم جب خلفائِ راشدین کا عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں صحیح سندوں کے ساتھ حضرت عمر اَور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ یہ دونوں حضرات صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفع ِ یدین کرتے تھے اَور کسی جگہ نہیں۔ اِن ہستیوں کا صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفع ِ یدین کرنا صاف بتلا رہا ہے کہ باقی مقامات پر کیا جانے والا رفع ِ یدین باقی نہیں رہا ورنہ یہ حضرات کبھی بھی اِس کو نہ چھوڑتے۔