ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
نیز معلوم ہوا کہ کمپنی ''سخاوت'' کرتے ہوئے بعض لوگوں اَور اِداروں کی فیس میں کچھ کمی بھی کردیتی ہے اِس لیے ہم کمپنی کے ساتھ رعایت کرتے ہوئے اِس کی فیس 400 روپے سے گھٹاکر 300روپے فرض کرلیتے ہیں اَور ٢٠١١ء میں کراچی کی گاڑیوں کی تعداد چھبیس لاکھ چودہ ہزار پانچ سو اَسی کو تین سو سے ضرب دیتے ہیں تو ٹوٹل اَٹھتر کروڑ تینتالیس لاکھ چوہتر ہزار روپے (یا اِس سے کم و بیش) جو عوام سے کمپنی کو قانون کے زور پر دِلوائی گئی یہ زبردستی کی ''بھتہ خوری'' نہیں تو کیا ہے ؟ یہ تو صرف کراچی کے اَعداد و شمار ہیں، پورے پاکستان میں ٢٠٠٧ء میں گاڑیوں کی تعداد کیا تھی ؟ روزنامہ ''جنگ'' کے ''ڈیویلپمنٹ رپورٹنگ سیل'' کی رپورٹ مؤرخہ٢٥ اگست ٢٠٠٨ء میں یہ تعداد باسٹھ لاکھ دس ہزار بتائی گئی ہے۔ اِس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کہ اِس تعداد میں چھوٹی سے چھوٹی گاڑیاں مثلاً موٹرسائیکلیں اَور بڑی سے بڑی گاڑیاں مثلاً ٹر ک، بسیں اَور ٹرالر بھی شامل ہیں یا نہیں ؟ جبکہ صرف کراچی شہر سے متعلق رپورٹ میں اِن سب قسم کی گاڑیوں کو شمار کیا گیا ہے۔ سالِ رواں ٢٠١٣ء میں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں گاڑیوں کی تعداد ستر لاکھ بتائی گئی ہے۔ پاکستان بھر کی گاڑیوں کی مذکور بالا تعدادستر لاکھ میں بالفرض سب قسم کی گاڑیاں شمار کرلی گئی ہیں اِس تعداد کو تین سو سے ضرب دے کر جواب ''دو اَرب دَس کروڑ روپے'' آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اَگر یہ اَعداد وشمار درُست ہیں تو صرف ایک سال میں اِس اِنشورنس کی فیس کمپنی (کمپنیوں) کو ''دو اَرب دَس کروڑ روپے'' دِلوائی گئی ہے۔ پیچھے آچکا ہے کہ ہر سال گاڑیوں کی تعداد میں لاکھوں کے حساب سے اِضافہ ہورہا ہے اِس لحاظ سے ہر سال کمپنی (کمپنیوں) کی اِنشورنس کی فیس میں بھی کروڑوں روپے کا اِضافہ ہورہا ہے۔ عوام سے جن میں بھاری اَکثریت غریبوں اَور متوسط طبقے کی ہے اِنشورنس کمپنیوں کے لیے سالانہ اَربوں روپے کی ایسی لوٹ مار کو قانونی جواز فراہم کرنا، اِسے بیورو کریسی اَور سرمایہ داروں کی ملی بھگت کے سوا کیا نام دیا جائے ؟ (باقی صفحہ ٦١)