ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2013 |
اكستان |
|
''دُوسرے خاص خاص ممتاز اَور نمایاں حضرات مثلاً شجاع الملک اَور ولایتی بیگم اِن کی اِجازت کے بغیر اِس علاقہ میں داخل نہیں ہوسکتے ،دہلی سے کلکتہ تک نصاری کی عملداری پھیلی ہوئی ہے۔'' اِسی عملداری میں تمام اَحکام اَنگریزوں ہی کے چلتے تھے اِس لیے حضرت شاہ صاحب نے نصاری کے زیر ِتسلط علاقہ کو دارُ الحرب قرار دیا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں فتاوی عزیزی فارسی جلد اَوّل ص ١٧ مطبوعہ مجتبائی و علمائِ ہند کا شاندار ماضی ج ٢ ص ٧٩ و ٨٠ ) اُس وقت آپ کے خلیفۂ اَجل سیّد اَحمدشہید اَور آپ کے عزیزو اَقارب اَور حلقۂ تلامیذ نے جہاد ضروری قرار دیا۔ سیّد صاحب نے ایک لشکر ترتیب دیا اَور ٧ جمادی الثانیہ ١٢٤١ھ/ ١٧ جنوری ١٨٢٦ء بروز دو شنبہ آپ نے وطن ِعزیز کو خیر باد کہہ کر آزاد قبائل کا راستہ لیا۔ آپ نے یہ مسافت تقریبًا دس ماہ میں طے کی آپ کا سفر سندھ کے راستہ ہوا، حیدر آباد میں سیّد صبغت اللہ ولایتی رحمةاللہ علیہ نے آپ کا اِستقبال کیا۔ ''پیران پگاڑو'' اِن ہی کی اَولاد میں ہیںجنہوں نے اُس تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی جو ''حر'' کے نام سے مشہور ہوئی۔ آخر کار ٤٣۔ ١٩٤٤ء میں اِس تنظیم کے اَمیر صبغت اللہ شاہ ثانی کو اَنگریزوں نے پھانسی دے دی اَور اِس تنظیم کو فوجی طاقت سے کچل ڈالا۔ سیّد صاحب حیدر آباد سے درّۂ بولان کے راستہ کوئٹہ، قندھار، غزنی اَو رکابل ہوتے ہوئے پشاور پہنچے ،پشاور تین روز قیام فر ما کر چار سدہ پہنچے یہاں پہنچتے ہی ہنگامی حالات شروع ہوگئے۔ نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے ١٠ جنوری ١٨٢٧ء (١٢ جمادی الثانیہ ١٢٤٢ھ) کو عارضی حکومت قائم کی گئی سیّد صاحب اُس حکومت کے سر براہ و اَمیر قرار دیے گئے۔ (شاندار ماضی ج ٢ ملخصًا ص ١٨٨ تا ١٩٠ ) حضرت سیّد صاحب قدس سرہ العزیز کی اَمارت کس قسم کی تھی اِس کے بارے میں حضرت مولانا عبیداللہ صاحب سندھی رحمة اللہ علیہ کے ایک پُر مغز مقالہ میںوضاحت ملتی ہے۔ اِس مقالہ کو ہم نے '' تحریک ِشیخ الہند '' نامی کتاب کا مقدمہ بنادیا ہے۔ اَب حوالہ میں اِسی کے صفحات دَرج کیے جائیں گے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں :