ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
معاملہ کا بکر کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ زمین کو اپنی خریدی ہوئی اَور اپنی ملکیت سمجھ کر اِس سے فائدہ اُٹھائے گا ورنہ حقیقت کے اِعتبار سے زید نے بکر سے قرض لیا ہے اَوراپنی زمین بکر کے پاس گروی رکھی ہے اَور گروی سے نفع اُٹھانا سود بنتا ہے۔ بیع بالوفاء کو متقدمین نے ناجائز کہا۔ اَلبتہ متاخرین نے یہ دیکھ کر کہ اہل ِ مصر پر قرض زیادہ چڑھ گئے ہیں اَور فوری واپسی کی صورت ممکن نہیں اُنہوں نے بیع بالوفاء کو جائز بتایا کہ مجبورکو اِس حیلے سے قرض ملے اَور قرض کی واپسی تک اِس کو مہلت بھی ملے۔ صکوک میں اَفراد کی ضرورت و حاجت کا مسئلہ نہیں ہے اَلبتہ مسلمانوں کی قوم واِجتماعیت کا مسئلہ ہے یعنی یہ کہ قومی اَور اِجتماعی سطح پر سرمایہ کاری شرعی ضابطوں کے مطابق ہو۔ اِس پر سوال پیداہوتا ہے کہ کیا اِقتصادیات کو اِسلامی بنانے میں حیلوں سے کام لیا جا سکتا ہے ؟ اگر جواب میں ہم کہیں کہ ہاں حیلوں سے کام لیا جاسکتا ہے تو اِس میں خرابی یہ ہے کہ اِقتصادیات کے اِسلامی اُصول واَحکام کسی کے سامنے عملًا کھل کر نہ آئیں گے اَ ور سمجھ بوجھ والے یہی سوچیں گے کہ اِس دَور کی اِقتصادی دَوڑ میں اِسلام بہت پیچھے رہ گیا ہے اَور اَب حیلوں کے ذریعے سودی نظام کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اَور نفس پرست لوگ کہیں گے کہ اگر اِسلامی صکوک کے نام کے حیلے سے مسلمان سرمایہ کاروں سے سرمایہ نکلوایا جاسکتا ہے تو ایسے ہی سہی۔ اَور اگر ہم کہیں کہ حیلوں سے کام نہیں لیا جاسکتا تو پھر بظاہر اِسلامی اِقتصادیات کی گاڑی حرکت ہی نہ کرے گی۔ غرض ایسے طریقوں سے اِسلام کے اِقتصادی نظام کا کوئی اچھا تصور سامنے نہیںآتااَلبتہ بڑے بڑے کارو باری یا صنعتی منصوبوں کے لیے اِنتہائی مال داروںکو یا حکومت کو اپنے عظیم منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم ہو جاتا ہے۔ صکوک کے حیلہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ صکوک جاری کرنے والا اپنی کسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کی مالیت کے صکوک بنا کر پبلک کو فروخت کرتا ہے تاکہ اِس کوسرمایہ حاصل ہو جو سودیا نفع کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ صکوک جاری کرنے والے کی یہ نیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی جائیداد کا مالک حقیقة