ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
اِس مملکت کی بھلائی اَور خیر خواہی کی خاطر خاص طور پر مذہبی طبقہ علمائے حق کی قیادت میں ہمیشہ سے کوشاں رہا ہے اِسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ملک کے عوام علمائے حق کی قیادت میں اَب تک بہت بڑی تعداد میں قربانیاں بھی دیتے رہے ہیں بالخصوص دینی مدارس کا کردار اَور اُن کی تمام تر توانیوں کا اہم ہدف یہی نقطہ رہا ہے کہ پاکستان میں نظام ِ اِسلامی کا نفاذ ہوجائے مگر نہ معلوم ہمارے اَندر وہ کون سی نادیدہ قوتیں ہیں جو اِن پاک مقاصد کی راہ میں مسلسل رُکاوٹیں کھڑی کر دیتی ہیں اَور پوری قوم کو ایسی راہ پر گامزن کر رکھا ہے جس کے نتیجہ میں قوم کا اَخلاقی دِیوالیہ ہوچکا ہے ملک تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے ملک کے قانون نافذ کرنے والے اِدارے لاقانونیت کو رواج دے ر ہے ہیں۔ اِن اَفسوس ناک حالات پر اَپنی طرف سے مزید کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے ایک چشم کشا تحریر نذرِقارئین کرتے ہیں جس سے ملک میں پس ِپردہ اِسلامی دُشمن قوتوں کے ناپاک عزائم اَور شرمناک طریقۂ وَاردات پر روشنی پڑتی ہے ۔ ''حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے پھل اگر شیریں ہے تو کوئی منطق، کوئی فلسفہ اِسے کڑوا ثابت نہیں کر سکتا اَور اگر پھل کڑوا ہے تو کوئی صحافیانہ اِنشاء پردازی اَور کوئی اَدیبانہ سحر بیانی اِسے شیریں ثابت نہیں کر سکتی۔ ہمارے مذکورہ بالا قائدین کی جدو جہد کے نتیجے میں ہمیں جو پھل ملا ہے اُس کے ایک نمونے کا ذکر روزنامہ نوائے وقت لاہور ٢٦ اپریل ٢٠٠٤ء کے اِدارتی کالموں میں ہوا ہے جسے میں ذیل میں درج کر رہا ہوں کیونکہ اِس کے مطالعہ سے ہی قاری کو اَندازہ ہو سکے گا کہ دو قومی نظریہ کے پھل کا ذائقہ کیسا ہے : ایک اَخباری رپورٹ میں کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے پاکستان آنے والے بھارتی شہریوں، صحافیوں اَور زندگی کے دُوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اَفراد نے بھارت جا کر پاکستان کی مہمان نوازی اَور سادہ دِلی کا مذاق اِن اَلفاظ وخیالات