ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
(٦) جب کوئی معاملہ آپ کے سامنے پیش آتا تو اُس کے فیصلہ کے لیے سب سے پہلے آپ قرآن شریف کو دیکھتے اگر قرآن سے فیصلہ نہ ہو سکتا تو پھر کوئی حدیث آپ کو یاد ہوتی تو اُس سے فیصلہ صادر کرتے ورنہ دُوسرے صحابہ کرام سے دریافت کرتے کہ کسی کو اِس مضمون کی حدیث یادہو تو بیان کرے، اگر کوئی حدیث مل جاتی تو بہت خوش ہوتے اَور اگر کوئی حدیث بھی نہ ملتی تو پھر علماء صحابہ کو جمع کر کے اُن کے اِتفاقِ رائے سے فیصلہ کرتے۔ چنانچہ دادی کی میراث کا ایک مقدمہ پیش ہوا تو قرآن شریف میں کہیں اِس کا ذکر نہیں ملا اَور کوئی حدیث بھی آپ کو یاد نہ تھی۔ آپ نے لوگوں سے دریافت کیا تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے دادی کو چھٹا حصہ دلایا تھا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کوئی اِس حدیث کو جانتا ہے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے بھی یاد ہے۔ اِس پر آپ بہت خوش ہوئے اَور یہی فیصلہ کردیا۔ علیٰ ہذا ایک مرتبہ دادا کی میراث کامسئلہ پیش آیا اَور کوئی حدیث بھی کسی کے پاس نہ نکلی اَور کسی ایک بات پر سب کااِتفاق بھی نہ ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے دادا کو باپ کے حکم میں داخل فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے جب دادا کی میراث کا مسئلہ دَرپیش ہوتا تو فرماتے جس کے حق میں رسولِ خدا ۖ نے فرمایا تھا کہ اگر میں خدا کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو اِس کو بناتا، اُس نے فیصلہ کردیا ہے کہ دادا باپ کے حکم میں ہے۔ غرض کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ ہر معاملہ میں رسولِ خدا ۖ کی کامل اِقتدا کرتے تھے اَور آپ نے مجتہدین ِ اُمت کو مسائل میں شرعی فیصلہ کرنے کا طریقہ بھی بتادیا جس پر سب کا عمل ہے۔ (٧) حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد ِ مبارک میں فروعات ِفقہیہ میں بھی مسلمان مختلف نہیںہونے پائے جہاں کوئی اِختلاف آپ نے سنا فورًا فیصلہ کردیا اَور آپ کے فیصلہ پر سب کے سر تسلیم خم ہوگئے، باقی رہا عقائد کا اِختلاف وہ صحابہ کرام میں آخر تک پیدا نہیں ہوا اَور یہ خدا کی بڑی رحمت تھی۔(جاری ہے)