ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
(٣) رسولِ خدا ۖ کے ذمہ کسی کا کچھ قرض باقی رہ گیا تھا یا کسی سے آپ ۖ نے کچھ وعدہ کیا تھا اِس کے پورا کرنے اَور اَدا کرنے کا برا اہتمام کیا جب بحرین سے مالِ غنیمت آیا اَور یہ پہلا مال تھا جو آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں آیا تھا تو آپ نے اعلان کرایا کہ جس کا قرض آنحضرت ۖ کے ذمہ ہو یا آپ ۖ نے کسی سے کچھ وعدہ کیا ہو وہ ہمارے پاس آئیں چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ آئے اَور ایک وعدہ اُنہوں نے بیان کیا جس کو حضرت صدیق ِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پورا کیا اَور ڈیڑھ درہم دیے۔ (٤) بڑا اِہتمام اِس بات کا کیا کہ رسولِ خدا ۖ کا جو برتاؤ جس کے ساتھ تھا اُس کو قائم رکھا جائے چنانچہ حضرت اُم ِ اَیمن کے پاس رسولِ خدا ۖ کبھی کبھی تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت صدیق نے بھی یہی دستور رکھا اَور خصوصیت کے ساتھ آنحضرت ۖ کے متعلقین اَور اہلِ قرابت کی دِل جوئی اَور اُن کے اِکرام و اِحترام کا اہتمامِ بلیغ فرمایا۔ حضرات ِحسنین یا حضرت فاطمہ یا دُوسری اُمہات المومنین کے متعلق تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں خود اپنی بیٹی حضرت عائشہ کا اَدب و اِحترام کرتے تھے اَور اُن کو ''میری ماں'' اُم المؤمنین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔( طبقات ابن ِسعد ج ٣) (٥) جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی میراث طلب کی تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن کو وہ حدیث سنائی کہ اَنبیاء کے مال میں میراث جاری نہیں ہو سکتی لہٰذا میراث تو نہیں اَلبتہ میرے پاس جس قدر مال ہے وہ میں آپ کے لیے حاضر کیے دیتا ہوں، وہ آپ ہی کا ہے، لے لیجیے۔ واقعی منصب ِنبوت کی تقدیس ١ اِس مسئلہ میراث سے خوب ظاہر ہوئی اَور یہ بہت بڑی خدمت ِ دین ِ پاک تھی جوخدا نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے لی۔ ف : میراث نہ ملنے سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے رَنجیدہ ہوجانا بالکل بے اَصل ہے جیساکہ میرے متعدد رسائل میں اِس کی مکمل تحقیق شائع ہو چکی ہے۔ ١ اگر اَنبیاء علیہم السلام کے مال میں میراث جاری ہوتی اَور رسولِ خدا ۖ کے وارثوں کو میراث ملتی تو مخالفین ِ اِسلام یہی کہتے کہ یہ دعویٔ نبوت اِسی لیے تھا کہ اِس کے ذریعے سے اپنی اَولاد کے لیے مال جمع کر جائیں ۔