ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2012 |
اكستان |
|
ایک مرتبہ خیرالمدارس میں وفاق کی میٹنگ کے موقع پر باتوں باتوں میں فرمایا کہ میں شرح ترمذی لکھ رہا ہوں، وہ میں نے سفرِحج میں حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں ملاحظہ کے لیے پیش کی آپ نے دیکھ کریہ ہدایت فرمائی کہ اِس میں غیر مقلد حضرات کے جواب میں بہت سخت قلم رکھا ہے، ایسا نہ ہونا چاہیے، اِس سے کتاب کی اَفادیت پر اَثر پڑتا ہے۔ فرماتے تھے کہ میں نے اِسی پر عمل کیا اَور ایسی عبارتیں بدل دیں۔ حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ کے بعد حضرت مولانا اَلسید اَسعد صاحب مدظلہم سے بہت تعلق رہا اِسی داعیۂ محبت کے تحت اُنہیں دوبار اپنے یہاں بلایا، مولانا اَلسیّد اَرشد صاحب کے پاکستان آنے کا اِنتظام فرمایا۔ اِن حضرات کو اَور خود حضرت مولانا المرحوم کو حضرت مولانا عزیزگل صاحب دامت برکاتہم العالیہ (سخاکوٹ، مالاکنڈایجنسی) سے اُن کی قابلِ رشک نسبت ہائے عالیہ کی بناء پر عقیدت ہے۔ حضرت مولانا رحمةاللہ علیہ نے اِن ہردو حضرات کے لیے سخاکوٹ کے ویزا کااہتمام فرمایا اَور اُن کی تشنگی بجھائی۔ جَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا۔ ع نہیں معلوم جائے کس کے سر یہ دَردِ سراَپنا حضرت مولانا عزیر گل صاحب دامت برکاتہم العالیہ حضرت شیخ العالم مولانا محمود حسن صاحب اَسیر مالٹا رحمہ اللہ تعالیٰ کے اُن چند جلیل القدر تلامذہ میں ہیں جو حضرت سے ایسے وابستہ ہوئے کہ اَسارت ِ مالٹا میں بھی ساتھ رہے۔ خدا وندکریم کے ہاں اُن کی اِس نیت کی قبولیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اَنگریز کی اِتنی وسیع عملداری کے باوجود اِن حضرات کو اللہ تعالیٰ نے اُستاد محترم کے ساتھ مالٹا ہی میں پہنچادیا۔ بحمداللہ سب ہی اَسیر جو آپ کے متعلقین میں تھے نہایت حوصلہ سے ثابت قدم رہے۔ ضَاعَفَ اللّٰہُ اَجْرَھُمْ جَمِیْعًا ۔ حضرت مولانا عزیر گل صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے حضرت مولانا بنوری نوراللہ مرقدہ کو خود اِتنی زیادہ عقیدت تھی جسے ناپا نہیں جا سکتا ،واقعات شاہد ہیں۔ جامعہ مدنیہ میں مولانا کی تشریف آوری سب سے پہلے ١٩٦٤ء کے قریب ہوئی تھی اُس زمانہ