ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
نے اِرشاد فرمایا اَ لْاِیْمَانُ بِضْع وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَةً اِیمان ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اُس کی فَاَفْضَلُھَا اُس میں سب سے اَفضل یہ ہے قَوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ تو اَفضل ترین تو یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ کہے آدمی یعنی خدا کو ایک مانے۔ مخاطَب جو تھے جناب رسول اللہ ۖ کے اَور صحابہ کرام کے وہ لوگ مسلمان نہیں تھے کوئی عیسائی تھا کوئی یہودی تھا اَور بیشتر مشرک تھے۔ جو یہودی ہیں اُنہوں نے بھی شرک کیا ہے ایک طرح کا وہ کہتے ہیں کہ عُزَیْرُنِابْنُ اللّٰہِ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ اَور عیسائی کہتے ہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں اُن کی والدہ خدا کی بیوی ہیں معاذ اللہ ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ جو یہ لوگ باتیں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اِن سے بلند وبالا ہے اللہ تعالیٰ کو حاجت نہیں ہے کہ بیٹا ہو اُس کا ، حاجت نہیں ہے کہ بیوی ہو اُس کی، وہ بے نیاز ہے اِس لیے اللہ کی ذات پاک ہے اِس سے کہ وہ کسی کی بھی محتاج ہو، بیٹے کی ضرورت پڑتی ہے نام چلے اَپنا اَور خود فنا ہوجاتا ہے آدمی اَور بیوی کی ضرورت پڑتی ہے کہ اَولاد ہو تو اللہ تعالیٰ تمام ضروریات سے بے نیاز ہیں اُسکی ذاتِ پاک وہ ہے جواَزلی ہے اَور اَبدی ہے ہم اُسے خدا مانتے ہیں۔ تو اَفضل ترین چیز تو یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ کہے آدمی حدیث شریف میں یہاں فرمایا گیا قَوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ کا تو مطلب یہ ہے کہ یہ جملہ زبان سے اَدا کرے اَور زبان سے اَدا کرنے میں بھی اِس میں ثواب ہے بار بار پڑھتے رہنے میں بھی ثواب ہے ایک مطلب تو یہ ہوا۔ دُوسرا مطلب یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ کہے یعنی بتوں سے اَور خدا کا کسی بھی طرح کا شریک ماننے سے توبہ کرے اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات دونوں میں کوئی شریک نہیں ہے اُس کا ، وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ اُس کا کوئی شریک نہیں ہے اُس کی ذات میں بھی کوئی شریک نہیں ہے اَور اُس کی صفات میں بھی کوئی شریک نہیں ہے۔'' شریک نہ ہونے'' کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہے باقی اُس نے اِنسان کو اَپنی صفات میں سے عنایت فرمائی ہیں صفات۔ حدیث شریف