ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
فکر مند تھے۔ اُنہوں نے اِس بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تذکرہ کیا اور اِن سے کہا کہ میری لڑکی سے تم نکاح کرلو۔ اِنہوں نے جواب دیا کہ سرِدست میرا اِرادہ نہیں ہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے وہی بات کہی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ۖ سے سُنا تھا کہ آپ ۖ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمانے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ جب آپ ۖ کو یہ معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح عثمان رضی اللہ عنہ سے کرنا چاہا اور وہ خاموش ہوگئے تو آپ ۖ نے فرمایا کیا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ایسی عورت نہ بتادوں جو اُن کے لیے حفصہ رضی اللہ عنہا سے بہتر ہے اور کیا حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایسا شوہر نہ بتادوں جو اُن کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ سے بہتر ہے۔ یہ فرماکر آنحضرت ۖ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نکاح میں لے لیا اور حضرت اُم ِکلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ (الاستیعاب) حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوگئی تو آنحضرت ۖ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ غمگین اور رنجیدہ ہیں۔ جناب رسول اللہ ۖ نے سوال فرمایا کہ میں تم کو رنجیدہ کیوں دیکھ رہا ہوں؟ اِنہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا مجھ سے زیادہ کسی کو مصیبت پہنچی ہوگی؟ اللہ کے رسول (ۖ) کی صاحبزادی جو میرے نکاح میں تھی اُس کی وفات ہوگئی جس سے میری کمر ٹوٹ گئی اور میرا جو آپ سے رشتہ دامادی تھا وہ نہیں رہا۔ یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ سیّد عالم ۖ نے فرمایا کہ اے عثمان( رضی اللہ عنہ)! لو یہ جبرئیل آئے ہیں اور اللہ کی طرف سے مجھ کو حکم دے رہے ہیں کہ تم سے تمہاری مُتَوَفّٰی بیوی کی بہن اُمِ کلثوم کا اُسی مہر پر نکاح کردُوں جو تمہاری بیوی کا تھا اور تم اِس کو اِس طرح رکھو جس طرح خوشگواری کے ساتھ اِس کی بہن کو رکھتے تھے۔ یہ فرماکر آنحضرت ۖ نے حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ یہ نکاح ربیع الاوّل ٣ ھ میں ہوا اور رُخصتی جمادی الثانی ٣ ھ میں ہوئی۔ حضرت اُم ِکلثوم رضی اللہ عنہ نے چھ برس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں رہ کر ملک ِبقا کا سفر اختیار کیا اور اِن سے کوئی اَولاد نہیں ہوئی۔ (اُسد الغابہ )